Monday 1 April 2013

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 



سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ھِلاتے ہیں
تو مَینا اپنے بچے چھوڑ کر کوئے کے بچوں کو
پَروں سے ڈھانپ لیتی ہے
سُنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گِر پڑے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سُنا ہے جب کِسی ندی کے پانی میں بَئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی رَو پہلی مچھلیاں اُس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آجائے ، کوئی پُل ٹوٹ جائے
تولکڑی کے ِ کِسی تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خُدا وندا ، جلیل و معتبر ، دانا و بِینا ، منصف و اکبر
میرے اِس ملک میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر 
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔۔!!






1 comment: