Sunday 21 April 2013

شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال


شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال

حکیم الامت، شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال 1938ء میں آج ہی کے روز ہم سے بچھڑ گئے۔ سرزمین ہند کی اک ایسی شخصیت، جن پر برصغیر کو تاقیامت فخر رہے گا۔

آپ نہ صرف اک معروف شاعر و کامیاب سیاست دان تھے بلکہ بیسویں صدی میں احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والی شخصیات میں آپ کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ نے ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور گو کہ اپنا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نہ دیکھ پائے لیکن انتقال کے 9 سال بعد آپ کے خواب کی تعبیر یعنی مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشے پر ضرور ابھری۔

علامہ محمد اقبال نے اردومیں اک نئی طرز کی شاعری کی بنیاد رکھی۔ ان سے قبل "ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویسوں کے سر پر عورت سوار تھی" لیکن اقبال نے اس صنف کو خواب غفلت کی شکار قوم کو جگانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی شاعری نے گویا پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں اک نئی روح پھونک دی۔ آپ نے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے مسلمانوں میں نیا جذبہ پھونکا اور اپنے 'نظریہ خودی' کے بل بوتے پران میں اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔

اقبال نے گو کہ اپنی تعلیم مغرب میں حاصل کی لیکن وہاں رہ کر انہوں نے پا لیا کہ مغربی تہذیب "شاخ نازک" پر قائم ہے اور پھر اس کی رد میں اتنی شدّومدّ کے ساتھ لکھا کہ شاید ہی مغربی تہذیب کے خلاف شاعری کے میدان میں لکھا گیا ہو۔

اردو میں آپ کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جبکہ فارسی میں چھ مجموعے اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ہیں۔ نثر میں اردو میں آپ نے 1903ء میں علم الاقتصاد اور 1930ء میں انگریزی میں اپنی اہم ترین تصنیف "The Reconstruction of Religious thought in Islam" لکھی۔

No comments:

Post a Comment