Tuesday 30 April 2013

یہ پوسٹ پڑھ کر سوچیں گا ضرور



یہ پوسٹ پڑھ کر سوچیں گا ضرور 


"تعلیم میں قطا دلچسی نہ تھی، جب حکومت نے بینیفٹس دینے بند کیے تو ٹیکسی خرید لی. کم از کم بھی ایک سو پچاس پاؤنڈز کی دہاڑی لگ جاتی تھی اوپر سے ورکنگ ٹیکس کریڈٹ بھی مل جاتا تھا، الغرض زندگی مزے کی تھی. مجھے ترس آتا تھا اپنے دوستوں پر جو غریب ہر وقت کتابیں ہی پڑھتے رہتے تھے، میں سوچتا تھا یہ بے کار لوگ ہیں، ڈگری ہاتھ میں لے کر نوکری کے لیے خوار ہوں گے.
پھر ایک دن ایک سفید فام میری ٹیکسی میں بیٹھا، کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگا، " یار ٹیکسی چلانا مسمانوں کا مذہبی فریضہ ہیں کیا، لندن، نیویورک، سڈنی، دبئی جہاں بھی جاؤ ٹیکسی ڈرائیور کوئی مسلمان ہی ہوتا ہے؟"
مجھے لگا کسی نے کس کر میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ہو. اس گورے کے سامنے میں نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن میں اندر سے ٹوٹ سا گیا تھا. اگلی صبح میں مقامی یونیورسٹی چلا گیا، میں نے GSCE سے تعلیم چھوڑی تھی لیکن مجھے مشروط داخلہ مل گیا. آج تین سال بعد میں LLB کے فائنل ایئر میں ہوں. آج بھی مجھے اس گورے محسن کا وہ جملہ یاد آتا ہے تو میں سوچتا ہوں، ہم تو وہ امت ہیں جن پر علم کا حصول فرض ہے لیکن ہماری یہچان دنیا کی نظر میں کیا ہے."


No comments:

Post a Comment