Tuesday 30 April 2013

یہ پوسٹ پڑھ کر سوچیں گا ضرور



یہ پوسٹ پڑھ کر سوچیں گا ضرور 


"تعلیم میں قطا دلچسی نہ تھی، جب حکومت نے بینیفٹس دینے بند کیے تو ٹیکسی خرید لی. کم از کم بھی ایک سو پچاس پاؤنڈز کی دہاڑی لگ جاتی تھی اوپر سے ورکنگ ٹیکس کریڈٹ بھی مل جاتا تھا، الغرض زندگی مزے کی تھی. مجھے ترس آتا تھا اپنے دوستوں پر جو غریب ہر وقت کتابیں ہی پڑھتے رہتے تھے، میں سوچتا تھا یہ بے کار لوگ ہیں، ڈگری ہاتھ میں لے کر نوکری کے لیے خوار ہوں گے.
پھر ایک دن ایک سفید فام میری ٹیکسی میں بیٹھا، کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگا، " یار ٹیکسی چلانا مسمانوں کا مذہبی فریضہ ہیں کیا، لندن، نیویورک، سڈنی، دبئی جہاں بھی جاؤ ٹیکسی ڈرائیور کوئی مسلمان ہی ہوتا ہے؟"
مجھے لگا کسی نے کس کر میرے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ہو. اس گورے کے سامنے میں نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن میں اندر سے ٹوٹ سا گیا تھا. اگلی صبح میں مقامی یونیورسٹی چلا گیا، میں نے GSCE سے تعلیم چھوڑی تھی لیکن مجھے مشروط داخلہ مل گیا. آج تین سال بعد میں LLB کے فائنل ایئر میں ہوں. آج بھی مجھے اس گورے محسن کا وہ جملہ یاد آتا ہے تو میں سوچتا ہوں، ہم تو وہ امت ہیں جن پر علم کا حصول فرض ہے لیکن ہماری یہچان دنیا کی نظر میں کیا ہے."




ووٹ ضرور دیں پر اپنا قیمتی وقت الیکشن کے کاموں میں زایۂ نہ کریں 

شیر کو ووٹ دو، بلے کو ووٹ دو، ترازو کو ووٹ دو، سائیکل کو ووٹ دو، زرداری کی مونچھوں کو ووٹ دو ، مگر اپنے روزمرہ کے کام کرتے رہیں، اپنا کاروبار چھوڑ کر نہ بیٹھیں کہ الیکشن کے بعد کچھ جادوئ کام ہونگے اس ملک میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقل مند انسان اپنی تقدیر ، اللہ کی مدد سے خود بدلنے کی کوشش کرتا ہے ،حو بھی حکمران آئیں گے، انھوں نے پاکستانی عوام کی کونسی امداد کرنی ہے، آئ ایم سے قرضے لے کر باہر سے ہی ہڑپ کرجانے ہیں، اور عوام کی طرف دیکھو کیسے پاگل ہو رہی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے الیکشن کے بعد کوئ جادوئ تبدیلی آجائے گی۔۔۔۔۔۔۔
حضرت علی رضی تعالی عنہ کا قول ہے
لوگو! نیکی کا حکم کرتے رہو برائ سے منع کرتے رہو ورنہ تم پر سخت حالات آجائیں گے، پھر تمھارے نیک لوگ بھی دعائیں کریں گے تو قبول نہ ہونگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نظر مارکیٹ کے تاجروں پہ ڈال آئیے، اور ایک نظر سرکاری افسران پہ ،،،،،،،،،، جو پاکستان میں مہنگائ اور کرپشن کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔۔ وہ سدھرنے کو تیار نہیں ہیں، آخرت بھولے ہوئے ہیں، تو یہ سیاستدان کیسے تبدیلی لائیں گے ۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
AB‬



Monday 29 April 2013

بلا عنوان


بلا عنوان 

کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے، ہم باتیں کرتے ہیں، ایسے ہونا چاہئیے، ویسے ہونا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئ فائدہ نہیں ہے۔ ہم ایسی قوم ہیں، جس میں پچاس فیصد سے زائد ڈھکن ہیں، جو کوئ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ بیچارے انقلابی بندے بھی سارے فیس بک پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔
ساری دنیا میں لوگ اپنے حق کے لیے اٹھتے ہیں، حکومت کو ان کی بات ماننا پڑٹی ہے، مگر ادھر صرف وہ اٹھتا ہے جس کے گھر یو پی ایس نہیں ہے، یا جس کو مچھر کاٹتا ہے۔ باقی سب بے حسی کی میٹھی نیند سو رہے ہیں، تو پھر کیسے انقلاب آئے گا، اس ملک میں تو غریب کی پہلے ہی نہیں سنی جاتی ، انقلاب تو تب آئے گا جب امیر طبقہ بھی احساس کرے گا کہ کیا مسائل ہیں، ساری سیٹوں پہ تو ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنھوں نے "غربت کا ایک دن بھی نہیں دیکھا" جن کو نہ چھوٹے گوشت کا ریٹ معلوم ہے نہ دال مسور کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہی ٹی وی چینل پر "انقلاب ، انقلاب" کرتے ہیں، جب اقتدار میں آتے ہیں تو ہر طرف ان کو خوشحالی نظر آتی ہے، اسی خوشحالی کی وجہ سے لوگوں پہ مزید ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
۔
از: عبدالباسط احسان AB

سیاستدان اور نام نہاد جمہوریت


سیاستدان اور نام نہاد جمہوریت


یہ سیاست ہے سیاست کے لیے سب "ہلکان" ہو رہے ہیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ کاش کہ یہ ان کی خفیہ ملاقاتیں دیکھ لیں تو ان کو معلوم ہو کہ ان سب کی آپس میں کتنی محبت ہے، اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوتی ہے، باہر آکر ایک دوسرے پہ حملے کرتے ہیں، گویا کھانا ہضم کرنے کی مشق ہو رہی ہوتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت کوئ بھی لیڈر نہیں ہے، ایک طرح سے مختلف جانوروں سے ، ایک کا انتخاب کرنا ہے، اب کوشش یہ کرنی ہے کہ جانور کم نقصان پہنچانے والا ہو۔ سچ بات یہ ہے کہ پاکستان میں وہ لیڈر ہے ہی نہیں جس کا موازنہ دنیا کے بڑے بڑے رہنماءوں سے کیا جاسکے، سب سیاستدان ہیں، رہنماء نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو ادب و شائستگی سے کیا کریں ، ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے گفتگو کیا کریں ۔
سچ یہ ہے کہ پاکستان میں نام نہاد جمہوریت ہے، پاکستان میں نام نہاد انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں، یہاں رشوت دے کر کوئ بھی ترقی کرسکتا ہے، اس لیے یہ نظام ایک دن بری طرح ناکام ہوگا، ایک ہی طرح کے لوگ ہم پر حکومت کرتے ہیں، چہرے بدل بدل کر ۔۔۔۔۔۔ نہ ہی پاکستان میں کوئ تبدیلی آئ ہے نہ ہی اس جمہوری نظام میں رہتے ہوئے آسکے گی۔
جب تک یہ ملک انصاف کے اصولوں پہ نہیں چلے گا، جب تک کرپٹ بندے پہ ہاتھ ڈالنے والے ہاتھ مضبوط نہیں ہونگے جب تک ایماندار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا بند نہیں کیا جائے گا جیسے کامران فیصل کو قتل کیا گیا جو رینٹل کیس کی تحقیقات کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ جب تک ظالم کو پھانسی کے تختے پہ لٹکایا نہیں جائے گا تب تک کوئ تبدیلی نہیں آنے والی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسی عوام ہے اس کے مطابق حکمران آتے رہیں گے ۔ عوام کو نئے سے نیاء خواب دیکھاتے رہیں گے ، جب تک لوگ خود اپنے اندر سے تبدیلی نہیں چاہیں گے تبدیلی نہیں آئے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
از: عبدالباسط احسان




Saturday 27 April 2013

اب کی بارنئے کو آزماناچاہئیے



کیونکہ مستقبل کا سوال ہے


 اب کی بار
نئے کو آزماناچاہئیے 

ایک شخص کے بیٹے پر تین سو دو کا، پرچہ ہوا، جس کی سزا پھانسی تھی
 ۔
لڑکے کا بات ، وکیل کرنے کے لیے گیا، ایک وکیل سے بات کی تو اس نے کہا بس دس ہزار لونگا ۔۔۔۔۔۔۔ لڑکے کے باپ نے دل میں کہا یہ تو کوئ نہایت ہی فضول وکیل ہے جو اتنی کم فیس لے رہا ہے وہ بھی قتل کے مجرم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دوسرے وکیل کے پاس گیا تو اس نے کہا ایک لاکھ لونگا، لڑکے کے باپ نے اسے وکیل کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ مقدمہ چلا ۔
لڑکے کا باپ مقدمہ ہار گیا، لڑکے کو پھانسی کی سزا ہوگئ۔
لڑکے کا باپ غم سے نڈھال عدالت سے نکل رہا تھا کہ پہلے والا وکیل ملا. اس نے پوچھا کیا بنا؟ لڑکے کے باپ نے کہا پھانسی کی سزا ہوگئ ۔۔۔۔۔۔ اس وکیل نےکہا یہ ہی کام میں نے دس ہزار میں کردینا تھا ۔۔۔۔۔۔
۔
بات دراصل یہ ہے کہ پاکستانی قوم بے بس ہے کیا کرے ، ایک طرف سستے سیاستدان ہیں، جو برسوں سے اقتدار میں ہیں، مگر عوام کی حالت نہیں بدل رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام کو اب تھوڑا سا حوصلہ کرکے نئے کو آزمانا پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل کا سوال ہے۔
باقی اللہ پر چھوڑ دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کیا ہوتا ہے
۔



انقلاب کا آغاز کریں

انقلاب کا آغاز کریں 

ایک ہوتی ہے اجتماعی فکر ، ایک ہوتی ہے انفرادی فکر ، اجتماعی فکر کیا ہے؟ کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہوں، ساری امت مسلمہ جو اس وقت پریشانیوں و تکالیف میں مبتلا ہے، اس سے نجات کا کوئ راستہ نکلے۔
انفرادی فکر یہ ہے کہ میں نے خود پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے کیا ،کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میرا چالان ہوا تو میں نے چپ کرکے چالان ہونے دیا کہ فون کرکے واقفیت کی بناء پر بچنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب سرکاری کام کروانے گئے، تو افسر نے رشوت مانگی۔۔۔ رشوت دینے سے انکار کیا ، یاں چپ کرکے مجبوری کی وجہ سے رشوت دے آیا۔
ایک انسان نے بھی خود کو بدل لیا، اس کے لیے انقلاب کا دن شروع ہوگیا، جب سب انسانوں کی سوچ ایک جیسی ہوجائے گی وہ فیصلہ کرلیں گے کہ ہم نے حق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی ہے، باطل کے خلاف جہاد کرنا ہے، تو پھر ایک بہت بڑا انقلاب آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش کی پہلی بوند جب گرتی ہے، تو گردو غبار، مٹی بیٹھنا شروع ہوجاتی ہے، پھر بارش برستی ہے تو سب کچھ دھل جاتا ہے، مگر سب سے قیمتی وہ بوندیں ہی ہوتی ہیں، جو گردو غبار کو بیٹھا دیتی ہیں۔۔۔۔۔۔
۔
۔۔۔




ہماری کہانی ایک سوچ ایک فکر


ہماری کہانی 

ایک سوچ ایک فکر 

ایک شیر کا بچہ بچھڑ گیا ، بکری نے اسے پالا ، وہ خود بھی بکری کی طرح پرورش پا کر بڑا ہوا، بکڑیوں کے ریوڑ کیساتھ چلتا، ایک دن ایک شیر نے جب ، اپنی طرح کے شیر کو بکریوں کےساتھ چلتے دیکھا تو بہت حیران ہوا کہ یہ کیسا شیر ہے۔ اس حیرت زدہ شیر نے اسے سمجھایا کہ تم شیر ہو تم طاقتور ہو، مگر شیر اس کی باتیں ایسے سنتا رہا، جیسے آج کل لوگ اس کی بات سنتے ہیں جو "پاکستان" میں بہتری کی بات کرتا ہے۔
اگلے دن پھر وہ ہی شیر ریوڑ کے ساتھ چل رہا تھا، دوسرا شیر پھر اس کے پاس گیا اور کہا کہ تم اپنے وقار کا خیال کرو، تم شیر ہو ، اسے پھر سمجھ نہ آئ، اسے سمجھانے کے لیے، اپنے ساتھ پانی کی طرف کھینچ کے لے گیا، جب اس نے اپنا عکس پانی میں دیکھا تو اسے پھر سمجھ آئ کہ میں تو "شیر" ہوں۔
ہماری قوم کا بھی یہ ہی حال ہوگیا ہے، ہم کون ہیں، یہ ملک" پاکستان" اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ یہاں سترہ کڑوڑ غلام رہیں، یہ پاکستان آزاد لوگوں کے لیے بنا ہے، اس آزادی کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی، عورتوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے کنویں میں چھلانگ لگا کر جانیں دی، پھر یہ پاکستان بنا ہے۔
ہم کب تک ان سیاستدانوں کے پیچھے چلتے رہیں گے جنھوں نے ہماری برسوں " بکریوں" کی طرح پرورش کی ہم کو ہانکتے رہے، ہم کو اپنا عکس ایک بار ، پانی میں ضرور دیکھنا چاہئیے۔
۔



Friday 26 April 2013

دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم

 دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم

قبرستانوں میں کیمرے لے کر جائو اور دہشت گردی کا شکار ہونے والے معصوم لوگوں کی قبروں سے سوال پوچھو کہ جمہوریت نے انہیں کیا دیا۔ ہزار بار لعنت معصوم عوام کو مارنے کے لئے دھماکہ خیز مواد بنانے والوں، جمع کرنے والوں اور فراہم کرنے والوں پر۔ اللہ کا قہر ٹوٹے ہر اس سازشی ذہن پر جو لاشوں پر اپنا محل بنانے کے خفیہ خواب دیکھتا ہو۔ اللہ کا عذاب نازل ہو ہر اس شخص پر جو دہشت گردی کی معاونت کرے، مدد فراہم کرے، غفلت کا مظاہرہ کرے اور خود شریک کار ہو یا ایسی کسی بھی کاروائی میں شریک ہونے والوں کی مذمت نہ کرے۔ سب کہو آمین



اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

 اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ تعالیٰ کی محبت کا راستہ اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی امت سے فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا طریقہ یہ ہے کہ میری اتباع کرو۔یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تقشِ قدم پر چلو۔اس پر ایک بات عرض کرتا ہوں کہ جتنا قدم قیمتی ہوتا ہے اتنا ہی قیمتی تقش قدم ہوتا ہے اور پوری کائنات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے بڑھ کر کسی مخلوق کا قدم نہیں ہے اس لیے اللہ سحانہ و تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو یعنی جس اللہ سے محبت کرنی ہے وہ قرآن میں آیت نازل فرما رہے ہیں اور اپنے محبوب سے کہلوا رہے ہیں کہ فَا تِّبِعُوْنِی میری اتباع کرو یعنی جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں عطا فرمائیں اس کو سر آنکھوں پر رکھ لو اور جس بات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم منع فرمائیں اس سے بچ جاؤ جس شخص نے سردار عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک میں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد مبارک میں فرق کیا اس نے اللہ تعالیٰ کے ارشادِ مبارک کی قدر نہ کی۔۔اللہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق دے (آمین)

مزدور و ں کی زندگی


مزدور و ں کی زندگی 
بہت سے مزدور ایسے ہیں جو کہ دیہاڑی دار ہیں، مطلب یہ کہ روز کے روز جو کماتے ہیں وہ ہی خرچ کرتے ہیں، اگر روز کا پانچ سو کماتے ہیں تو پانچ سو ہی خرچ کرتے ہیں، جن میں بجلی و گیس کے بل اور مکان کا کرایہ بھی شامل ہوتا ہے۔ صرف ایک دن کی لوڈشیڈنگ وجہ سے ، ان کی ایک دن کی دیہاڑی ٹوٹ جاتی ہے، اس دن یا تو فاقے کرتے ہیں، یا واقفیت کی بناء پر محلے کے کسی سٹور سے ادھار پر کھانے پینے کی چیزیں خریدنے پہ مجبور ہوتے ہیں، ایسے دیہاڑی دار مزدور لاکھوں کی تعداد میں ہیں، جو صنعتوں سے وابستہ ہیں، جن کے لیے بجلی فاقوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
یہ لاکھوں کی تعداد میں مزدور فاقہ مستی پہ مجبور ہیں، کئ قرض کی وجہ سے حالات سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اپنی جان ، اپنے ہاتھوں سے ختم کرلی ۔۔۔۔
جب سے پاکستان بنا ہے ، روٹی ، کپڑا و مکان کا نعرہ سب سے مقبول سیاسی نعرہ رہا ہے، خاص کر بھٹو صاحب کے زمانے میں تو اس نعرے نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخابات سر پر ہیں، اور لوڈ شیڈنگ کی انتہا ہے۔ عوام بیچاری عجیب کیفیت میں مبتلا ہے، وہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی سے مایوس نظر آتی ہے، نگران حکومت کے زمانے میں ہی ظلم وجبر کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کہ ایک خود کش حملہ آور ، ان سیاستدانوں اور ان لوگوں کے درمیان جنھوں نے ملک کو آپاہج بنا رکھا ہے ، پھٹ جائے ۔ ساری قوم اس کو جنت کی بشارت دے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔


فرقے اور قرآن (Quran and Firqe)


فرقے  اور قرآن 


Thursday 25 April 2013

We must try to help them like our Own Children


We must try to help them like our Own Children 



نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم بھی تھے، مسکین بھی تھے، جو ان یتیموں و مسکینوں کے سر پر ہاتھ پھیرے گا، مطلب یہ کہ ان کے غم دور کرنے کی کوشش کرے گا، ان سے محبت سے پیش آئے گا، ان کی ضروریات کا خیال رکھے گا، اس شخص سے اللہ رب العزت کی ذات اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہت خوش ہوگی۔
ہمارے اردگرد ، بہت سے بچے ہیں یتیم ہیں، ان کو ہماری توجہ کی ضرورت ہے، ہم ان سے ایسے پیش آئیں جیسے باپ ، اپنے سگے بیٹے سے پیش آتا ہے، تاکہ کل قیامت کے دن یہ نیکی ترازو کے پلڑے، میں رکھی جائے تو نیکیوں کا پلڑا بھاری ہونے کا باعث بنے۔
ہمیں عملی میدان میں اتر کر یتیموں کی مدد کی ضرورت ہے، صرف اللہ کی رضاء کے لیے، مگر ان کو اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ ہم ان سے ہمدردی رکھتے ہیں، بلکہ ان کو یہ احساس ہو ، جیسے ہم ان کے اپنے ہیں۔
۔
از: عبدالباسط احسان

Wednesday 24 April 2013

میرے مطابق ** سانحہ لال مسجد کے وقت ڈاکٹر ں ؟ شاہد مسعود کا لکھا گیا کالم




جُرم تو صرف اتنا تھا کہ وہ معاشرے سے بدکاری کے خاتمے کا عزم لئے باہر نکلیں اور ایک قحبہ خانہ چلاتی عورت کو سبق سکھانے اپنے ساتھ لے آئیں اور دو تین روز بعد اُسے برقعہ پہنا کر، توبہ کروا کے چھوڑ دیا. پھر ایک مالش کے مرکز پر جا پہنچیں اور وہاں جسم فروشی کرتی خواتین کو اپنے ہمراہ لا کر خوب جھاڑ پلائی اور پھر نصیحت کے بعد روانہ کر دیا. ڈنڈے لے کر گھومتیں مگر کسی کا سر تو نہ پھاڑا. اُس وطنِ عزیز میں جہاں حکمرانوں اور طاقتوروں میں سے ہر دوسری شخصیت کسی لینڈ مافیا سے وابستہ ہے۔ وہ مسجد شہید ہونے کے بعد پڑوس کی ایک لائبریری پر جا دھمکیں. روشن خیال، خوشحال، خوش پوش دارالحکومت کی عظیم الشان کوٹھیوں کے درمیان، جن کی اکثریت رات گئے شراب و شباب کی محفلیں اپنے عروج پر دیکھا کرتی ہے۔۔۔ ایک کونے میں یہ معصوم ،سادہ ،حجاب میں ملبوس، پاکیزہ روحیں تلاوتِ قرآن پاک میں مگن رہتیں. کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟ میں جب اُن سے ملا تو اُن کے لہجے میں عجب اکتاہٹ اور محرومیت کا احساس ہوا. آنکھوں میں اُداسیت۔ معاشرے سے شکایت اور بیزاری. سونے کے کنگنوں سے محروم کلائیوں اور نیل پالش سے محروم ہاتھوں میں ڈنڈے اُس بے کسی کا اظہار تھے جو غریب سادہ لوح گھرانوں کی ان شریف اور باکردار بچیوں کی آنکھوں سے بھی کراہ رہی تھی! 
اُن کے طرزِ عمل سے ذرا سا اختلاف کرنے کی گستاخی ہوئی تو سب اُلجھ پڑیں، "شاہد بھائی آپ کو کیا پتہ؟"۔ "ڈاکٹر صاحب آپ نہیں جانتے۔ کسی آیت کا حوالہ، کسی حدیث کی دلیل، سب ایک ساتھ پِل پڑیں "آپ کو پتہ ہے امریکا میں کیا ہو رہا ہے؟"۔ "یہ یہودیوں کی سازش ہے"۔ "ہمارے دشمنوں کی چال ہے۔۔۔"۔ "صلیبی جنگ ہے" وغیرہ وغیرہ۔ میں بڑی مُشکل سے اُنہیں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد چُپ کروانے میں کامیاب ہو سکا۔ اُن کی نگراں اُمِ حسان نے اسی دوران بتایا کہ " یہ طالبات ایک عرصے سے یہاں آئے مرد مہمانوں سے گفتگو نہیں کرتیں لیکن آپ سے ملنے کیلئے اِن کی ضد تھی"۔ میں نے خاموشی مناسب تصور کرتے ہوئے اُن کی گفتگو سُننے میں عافیت تصور کی۔ یہ میرے لئے ایک مختلف دُنیا تھی۔ شاید یہ فیشن زدہ، جدیدیت کی دلدل میں ڈوبی، ٹی شرٹ جینز میں ملبوس خوش شکل لڑکیوں کو ہر روز اپنے چھوٹے تاریک کمروں کے روشن دانوں سے جھانک کر باہر سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتا دیکھتی ہوں۔ ممکن ہے قریبی بازار تک آتے جاتے اِن کے کانوں تک بھی دلفریب نغموں کی تھاپ پہنچتی ہو گی۔ کچی عمروں میں یقینا اِن کی آنکھیں بھی خواب دیکھتی ہوں گی۔ اِن کا دل بھی کبھی اچھے رشتوں کی آس میں دھڑکتا ہو گا۔ اِن کا بھی عید پر نئے کپڑے سلوانے، ہاتھوں میں حِنا سجانے اور چوڑیاں پہننے کو جی للچاتا ہو گا۔ لیکن آرزوئیں، خواہشات اور تمنائیں ناکام ہو کر برقعوں کے پیچھے اس طرح جا چھپیں کہ پھر نہ چہرے رہے، نہ شناخت، صرف آوازیں تھیں۔ جو اب تک میرے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اِنہی میں ایک چھوٹی بچی۔ یہی کوئی آٹھ دس برس کی۔ حجاب میں اس طرح ملبوس کہ چہرہ کُھلا تھا۔۔ گفتگو سے مکمل ناواقفیت کے باوجود مسلسل ہنسے جاتی تھی کہ شاید یہی مباحثہ اُس کی تفریح کا سبب بن گیا تھا۔
"بیٹی آپ کا نام کیا ہے۔۔۔؟" میرے سوال پر پٹ سے بولی "اسماء۔۔انکل!" پیچھے کھڑی اس کی بڑی بہن نے سر پر چپت لگائی "انکل نہیں، بھائی بولو" خُدا جانے اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی کہ چھوٹے قد کے فرشتے نے اس پر بھی قہقہہ لگا کر دہرایا "جی بھائی جان"۔ "آپ کیا کرتی ہیں؟" میں نے ننھی اسماء سے پوچھا۔" پڑھتی ہوں"۔ "کیا پڑھتی ہو بیٹا؟"۔ جواب عقب میں کھڑی بہن نے دیا "حفظ کر رہی ہے بھائی"۔ "اور بھی کچھ پڑھا رہی ہیں؟" میں نے پوچھا۔" جی ہاں! کہتی ہے بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی۔ بہن نے جو کہ یہی کچھ پندرہ سولہ برس کی مکمل حجاب میں ملبوس تھی، جواب دیا۔ "آپ دو بہنیں ہیں؟" میں نے سوال کیا۔ "جی ہاں بھائی" بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں لیتے ہوئے کہا "تین بھائی گاؤں میں ہیں۔ ہم بٹہ گرام سے ہیں نا!! کھیتی باڑی ہے ہماری"
میں جامعہ حفصہ اور لال مسجد میں ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی سلسلے میں موجود تھا۔۔ طالبات اور عبدالرشید غازی صاحب سے گفتگو کے بعد میں نے بچیوں کو خُدا حافظ کہہ کر غازی صاحب کے ساتھ اُن کے حجرے کی طرف قدم بڑھایا تو ننھی اسماء پیچھے بھاگتی ہوئی آئی "بھائی جان! آٹوگراف دے دیں"۔ ہانپ رہی تھی"میرا نام اسماء اور باجی کا نام عائشہ ہے"۔ میں نے حسبِ عادت دونوں کیلئے طویل العمری کی دُعا لکھ دی۔ آگے بڑھا تو ایک اور فرمائش ہوئی۔ "بھائی جان! اپنا موبائل نمبر دے دیں۔ آپ کو تنگ نہیں کروں گی"۔ نہ جانے کیوں میں نے خلافِ معمول اُس بچی کو اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ اُس کی آنکھیں جیسے چمک اُٹھیں۔۔ اسی دوران غازی صاحب نے میرا ہاتھ کھینچا۔۔
"ڈاکٹر صاحب یہ تو ایسے ہی تنگ کرتی رہے گی۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور عبدالعزیز صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں"۔ بچی واپس بھاگ گئی اور میں مدرسے کے اندر تنگ گلیوں سے گُزرتا عقب میں غازی صاحب کے حجرے تک جا پہنچا جہاں اُنہوں نے کہا کہ "ڈاکٹر صاحب ایک زحمت!! والدہ بھی آپ کو دُعا دینا چاہتی ہیں۔ "کھانا ہم نے فرش پر دسترخوان بچھا کر کھایا اور اس دوران عبدالعزیز صاحب بھی ساتھ شامل ہو گئے۔ بات چیت ہوتی رہی اور جب میں نے رُخصت چاہی تو اُنہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ عطیہ دیتے ہوئے دوبارہ آنے کا وعدہ لیا اور پھر دونوں بھائی جامعہ کے دروازے تک چھوڑنے اس وعدے کے ساتھ آئے کہ میں دوبارہ جلد واپس آؤں گا۔ حقیقت یہ کہ میں دونوں علماء کا استدلال سمجھنے سے مکمل قاصر رہا۔ چند مسلح نوجوان اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ مصافحہ تو کیا لیکن گفتگو سے اجتناب کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔ لیکن دروازے سے باہر قدم رکھتے وہی شیطان کی خالہ اسماء اچھل کر پھر سامنے آ گئی "بھائی جان۔ میں آپ کوفون نہیں کروں گی، وہ کارڈ باجی کے پاس ختم ہو جاتا ہے نا۔ ایس ایم ایس کروں گی۔ جواب دیتے رہیے گا۔۔ پلیز بھائی جان"۔
اُس کی آنکھوں میں معصومیت اور انداز میں شرارت کا امتزاج تھا۔۔۔"اچھا بیٹا۔ ضرور۔۔اللہ حافظ" جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا تو بڑی بہن بھی روشندان سے جھانک رہی تھی کہ یہی دونوں بہنوں کی کُل دُنیا تھی۔ 
کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟ جو احباب میری ذاتی زندگی تک رسائی رکھتے ہیں وہ واقف ہیں کہ میں خبروں کے جنگل میں رہتا ہوں۔ دن کا بیشتر حصہ اخبارات۔ جرائد اور کتابوں کے اوراق میں دفن گُزارتا ہوں۔ چنانچہ گزرے تین ماہ کے دوران بھی جہاں چیف جسٹس کا معاملہ پیچیدہ موڑ اختیار کرتا۔ اُن میں الجھائے رہنے کا سبب بنا۔ وہیں یہ مصروفیات بھی اپنی جگہ جاری رہیں۔ لیکن اس تمام عرصے، وقفے وقفے سے مجھے ایک گمنام نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوتے رہے۔ عموماً قرآن شریف کی کسی آیت کا ترجمہ یا کوئی حدیثِ مبارکہ۔۔ یا پھر کوئی دُعا رومن اُردو میں۔ اور آخر میں بھیجنے والے کا نام۔۔۔"آپ کی چھوٹی بہن اسماء" یہ سچ ہے کہ ابتداء میں تومجھے یاد ہی نہیں آیا کہ بھیجنے والی شخصیت کون ہے؟ لیکن پھر ایک روز پیغام میں یہ لکھا آیا کہ "آپ دوبارہ جامعہ کب آئیں گے؟" تو مجھے یاد آیا کہ یہ تو وہی چھوٹی نٹ کھٹ، حجاب میں ملبوس بچی ہے جس سے میں جواب بھیجنے کا وعدہ کر آیا تھا۔ میں نے فوراً جواب بھیجا "بہت جلد۔۔"۔ جواب آیا"شکریہ بھائی جان"۔ میں اپنے موبائل فون سے پیغام مٹاتا چلا گیا تھا چنانچہ چند روز قبل جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی کارروائی کا اعلان ہوا تو میں نے بے تابی سے اپنے فون پر اُس بچی کے بھیجے پیغامات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن بد قسمتی سے میں سب مٹا چُکا تھا۔ اُمید تھی کہ اسماء بڑی بہن کے ساتھ نکل گئی ہو گی۔ لیکن پھر بھی بے چینی سی تھی۔ کوئی آیت، حدیث، دُعا بھی نہیں آ رہی تھی۔ اس تصور کے ساتھ خود کو تسلی دی کہ ان حالات میں، جب گھر والے دور گاؤں سے آ کر دونوں کو لے گئے ہوں گے تو افراتفری میں پیغام بھیجنے کا موقع کہاں؟؟ جب بھی اعلان ہوتا کہ "آج رات کو عسکری کارروائی کا آغاز ہو جائے گا"۔ "فائرنگ، گولہ باری کا سلسلہ شروع"، "مزید طالبات نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا"، "ابھی اندر بہت سی خواتین اور بچے ہیں"، "یرغمال بنا لیا گیا ہے" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو میری نظر اپنے موبائل فون پر اس خواہش کے ساتھ چلی جاتی کہ کاش!! وہ پیغام صرف ایک بار پھر آ جائے میں نے جسے کبھی محفوظ نہ کیا۔۔ کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟ 
8جولائی کی شب اچانک ایک مختصر ایس ایم ایس موصول ہوا "بھائی جان! کارڈ ختم ہو گیا ہے پلیز فون کریں۔" میں نے اگلے لمحے رابطہ کیا تو میری چھوٹی، پیاری اسماء زاروقطار رو رہی تھی" بھائی جان، ڈر لگ رہا ہے۔ گولیاں چل رہی ہیں۔ میں مر جاؤں گی"۔ میں نے چلا کر جواب دیا "اپنی بہن سے بات کراؤ۔۔" بہن نے فون سنبھال لیا "آپ دونوں فوراً باہر نکلیں معاملہ خراب ہو رہا ہے کہیں تو میں کسی سے بات کرتا ہوں کہ آپ دونوں کو حفاظت سے باہر نکالیں۔۔"دھماکوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ بڑی بہن نے اسماء کو آغوش میں چھپا رکھا ہے لیکن چھوٹی پھر بھی بلک رہی ہے۔ رو رہی ہے۔۔ "بھائی وہ ہمیں کیوں ماریں گے؟؟ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، وہ بھی کلمہ گو ہیں اور پھر ہمارا جُرم ہی کیا ہے؟ آپ تو جانتے ہیں بھائی ہم نے تو صرف باجی شمیم کو سمجھا کر چھوڑ دیا تھا۔۔ چینی بہنوں کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔۔ بھائی!! یہ سب ان کی سیاست ہے، ہمیں ڈرا رہے ہیں" بہن پُر اعتماد لہجے میں بولی۔۔ " دیکھیں! حالات بُرے ہیں، میں بتا رہا ہوں آپ فوراً نکل جائیں خدا کیلئے"۔ مجھے احساس ہوا کہ میں گویا اُنہیں حکم دے رہا ہوں۔  
"بھائی!! آپ یونہی گھبرا رہے ہیں۔ غازی صاحب بتا رہے تھے کہ یہ ہمیں جھکانا چاہ رہے ہیں۔ باہر کچھ بھائی پہرہ بھی دے رہے ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو گا، آپ دیکھیے گا، اب فوج آ گئی ہے نا۔ یہ بدمعاش پولیس والوں کو یہاں سے بھگا دے گی۔ آپ کو پتہ ہے، فوجی تو کٹر مسلمان ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں کیوں ماریں گے۔ ہم کوئی مجرم ہیں، کوئی ہندوستانی ہیں، کافر ہیں، کیوں ماریں گے وہ ہمیں"۔ بہن کا لہجہ پُر اعتماد تھا اور وہ کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھی "ڈاکٹر بھائی مجھے تو ہنسی آ رہی ہے کہ آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں!! آپ کو تو پتہ ہے کہ یہ سلسلہ" اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ یہ اسماء تو یونہی زیادہ ڈر گئی ہے اور ہاں آپ کہیں ہم بہنوں کا نام نہ لیجئے گا۔ ایجنسی والے بٹہ گرام میں ہمارے والد، والدہ اور بھائیوں کو پکڑ لیں گے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بھائی۔ وہ ہمیں کبھی نہیں ماریں گے"۔ میں نے دونوں کو دُعاؤں کے ساتھ فون بند کیا اور نمبر محفوظ کر لیا۔ اگلے روز گزرے کئی گھنٹوں سے مذاکرات کی خبریں آ رہی تھیں اور میں حقیقتاً گُزرے ایک ہفتے سے جاری اس قصے کے خاتمے کی توقع کرتا، ٹی وی پر مذاکرات کو حتمی مراحل میں داخل ہوتا دیکھ رہا تھا کہ احساس ہونے لگا کہ کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے چند شخصیات کو اسلام آباد فون کر کے اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ معاملہ بگڑنے کو ہے تو جواباً ان خدشات کو بلا جواز قرار دیا گیا لیکن وہ دُرست ثابت ہوئے اور علماء کے وفد کی ناکامی اور چوہدری شجاعت کی پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی وہ عسکری کارروائی شروع ہو گئی جس کی قوت کے بارے میں، موقع پر موجود ایک سرکاری افسرکا بیان تھا
"لگتا ہے پوری بھارتی فوج نے چھوٹے ملک بھوٹان پر چڑھائی کر دی ہے" فائرنگ۔۔ دھماکے۔۔ گولہ باری۔۔ شیلنگ ۔۔ جاسوس طیارے۔۔ گن شپ ہیلی کاپٹرز۔۔۔خُدا جانے کیا کچھ۔ اور پھر باقاعدہ آپریشن شروع کر دینے کا اعلان۔ اس دوران عبد الرشید غازی سے بھی ایک بار ٹی وی پر گفتگو کا موقع ملا۔۔ اور پھر پتہ چلا کہ اُن کی والدہ آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اور تبھی صبح صادق فون پر ایس ایم ایس موصول ہوا "پلیز کال" یہ اسماء تھی۔ میں نے فوراً رابطہ کیا تو دوسری طرف۔ چیخیں۔۔ شور شرابہ۔۔ لڑکیوں کی آوازیں "ہیلو۔۔اسماء! بیٹی! ہیلو" خُدا جانے وہاں کیا ہو رہا تھا "ہیلو بیٹی آواز سُن رہی ہو" میں پوری قوت سے چیخ رہا تھا۔ "بات کرو کیا ہوا ہے" وہ جملہ۔۔ آخری سانسوں تک میری سماعتوں میں زندہ رہے گا۔ ایک بلک بلک کر روتی ہوئی بچی کی رُک رُک کر آتی آواز "باجی مر گئی ہے۔۔ مر گئی ہے باجی۔۔" اور فون منقطع ہو گیا۔ اسٹوڈیوز سے کال آ رہی تھی کہ میں صورتحال پر تبصرہ کروں لیکن میں بار بار منقطع کال ملانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کچھ کہنے یا سُننے کی ہمت نہ تھی۔ کسی کمانڈو جیسی طاقت، اعجازالحق جیسی دیانت اور طارق عظیم جیسی صداقت نہ ہونے کے باعث مجھے ٹی وی پر گونجتے ہر دھماکے میں بہت سی چیخیں۔۔ فائرنگ کے پیچھے بہت سی آہیں اور گولہ باری کے شور میں "بھائی جان! یہ ہمیں کیوں ماریں گے؟" کی صدائیں سُنائی دے رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دھواں بھر گیا ہو گا۔ اور باہر فائرنگ ہو رہی ہو گی۔ بہت سی بچیاں تھیں۔۔ فون نہیں مل رہا تھا۔۔ پھر عمارت میں آگ لگ گئی۔ اور میں اسماء کو صرف اُس کی لا تعداد دُعاؤں کے جواب میں صرف ایک الوداعی دُعا دینا چاہتا تھا۔۔ ناکام رہا۔ فجر کی اذانیں گونجنے لگیں تو وضو کرتے ہوئے میں نے تصور کیا کہ وہ جو سیاہ لباس میں ملبوس مجھ سے خواہ مخواہ بحث کر رہی تھیں۔۔ اب سفید کفن میں مزید خوبصورت لگتی ہوں گی۔ جیسے پریاں۔ قحبہ خانوں کے سر پرستوں کو نوید ہو کہ اب اسلام آباد پُر سکون تو ہو چکا ہے لیکن شاید اُداس بھی۔ اور یہ سوال بہت سوں کی طرح ساری عمر میرا بھی پیچھا کرے گا کہ وہ کون تھیں؟ کہاں چلی گئیں؟





Tuesday 23 April 2013

ﺯﺍﻭﯾﮧ ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ


ﺯﺍﻭﯾﮧ  ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ


ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﮯ ﺩﺭﺷﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ۔ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮨﯿﮟ.

ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ

ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ
ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ
ﮐﮯ ﮐﯿﮍﮮ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ
ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ
ﺑﺎﺑﮯ، ﮐﺴﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎ ﯾﺎ ﮨﺎﺩﯼ
ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩٰﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔

(ﺯﺍﻭﯾﮧ ﺩﻭﻡ ﺳﮯ ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ)



ShaikH Abdul Rehman Alsudais (Imaam e Kaba)


ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺴﺪﯾﺲ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ



ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻢ ﻋُﻤﺮ
ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ
ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﯾﺪ ﻏﻠﻄﯽ
ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ

ﻃﯿﺶ ﺁﮔﯿﺎ، ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ
ﮐﮩﺎ )ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﭙﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ
ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ( ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﭼﻞ
ﺑﮭﺎﮒ ﺍِﺩﮬﺮ ﺳﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺣﺮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﺎ
ﺍِﻣﺎﻡ ﺑﻨﺎﺋﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ
ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺩﯾﺌﮯ، ﺫﺭﺍ ﮈﮬﺎﺭﺱ
ﺑﻨﺪﮬﯽ ﺗﻮ ﺭُﻧﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ؛ ﺍﮮ
ﺍُﻣﺖ ﺍِﺳﻼﻡ، ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍِﻣﺎﻡ ﺣﺮﻡ
ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺴﺪﯾﺲ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺍَﮐﺒﺮ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ
ﺍﻟﺴﺪﯾﺲ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺬﺍﺕِ ﺧﻮﺩ ﮨﻮ
ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﺣﺮﻡ
ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺩﻟﻌﺰﯾﺰ ﺍِﻣﺎﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍِﺳﻼﻡ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﺮ ﺩِﻝ ﭘﺮ ﺭﺍﺝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ!!!
۔۔ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻣﺎﺅﮞ، ﺍﭘﻨﮯ
ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﯽ ﺭﮨﻮ۔ ﭼﺎﮨﮯ
ﮐﺘﻨﺎ ﮨﯽ ﻏﺼﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍُﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ
ﺧﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﮨﯽ ﻧﮑﺎﻻ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﻟﻌﻦ
ﻃﻌﻦ، ﺳﺐ ﻭ ﺷﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺳُﻦ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺩُﻋﺎ ﻭ ﺑﺪ ﺩُﻋﺎ
ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔


ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻢ ﻋُﻤﺮ
ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ
ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﯾﺪ ﻏﻠﻄﯽ
ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺍﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺳﮑﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ
ﻃﯿﺶ ﺁﮔﯿﺎ، ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ
ﮐﮩﺎ )ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺑﭙﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻔﺎﻅ
ﭘﺮ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ( ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﭼﻞ
ﺑﮭﺎﮒ ﺍِﺩﮬﺮ ﺳﮯ، ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺣﺮﻡ ﺷﺮﯾﻒ ﮐﺎ
ﺍِﻣﺎﻡ ﺑﻨﺎﺋﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ
ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺩﯾﺌﮯ، ﺫﺭﺍ ﮈﮬﺎﺭﺱ
ﺑﻨﺪﮬﯽ ﺗﻮ ﺭُﻧﺪﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻟﮯ؛ ﺍﮮ
ﺍُﻣﺖ ﺍِﺳﻼﻡ، ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍِﻣﺎﻡ ﺣﺮﻡ
ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ ﺍﻟﺴﺪﯾﺲ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺍَﮐﺒﺮ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﺷﯿﺦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤٰﻦ
ﺍﻟﺴﺪﯾﺲ ﺣﻔﻈﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﺬﺍﺕِ ﺧﻮﺩ ﮨﻮ
ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﺣﺮﻡ
ﺷﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺩﻟﻌﺰﯾﺰ ﺍِﻣﺎﻡ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍِﺳﻼﻡ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﺮ ﺩِﻝ ﭘﺮ ﺭﺍﺝ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ!!!
۔۔ﺷﯿﺦ ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻣﺎﺅﮞ، ﺍﭘﻨﮯ
ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﯽ ﺭﮨﻮ۔ ﭼﺎﮨﮯ
ﮐﺘﻨﺎ ﮨﯽ ﻏﺼﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺍُﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ
ﺧﯿﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﮨﯽ ﻧﮑﺎﻻ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﻟﻌﻦ
ﻃﻌﻦ، ﺳﺐ ﻭ ﺷﺘﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺳُﻦ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺩُﻋﺎ ﻭ ﺑﺪ ﺩُﻋﺎ
ﻗﺒﻮﻝ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

@[144428562240824:274:Ulma e Deoband]
♥حافظ ♥

Sunday 21 April 2013

شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال


شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال

حکیم الامت، شاعر مشرق بلکہ شاعر اسلام علامہ محمد اقبال 1938ء میں آج ہی کے روز ہم سے بچھڑ گئے۔ سرزمین ہند کی اک ایسی شخصیت، جن پر برصغیر کو تاقیامت فخر رہے گا۔

آپ نہ صرف اک معروف شاعر و کامیاب سیاست دان تھے بلکہ بیسویں صدی میں احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والی شخصیات میں آپ کا شمار صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ نے ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور گو کہ اپنا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نہ دیکھ پائے لیکن انتقال کے 9 سال بعد آپ کے خواب کی تعبیر یعنی مملکت خداداد پاکستان دنیا کے نقشے پر ضرور ابھری۔

علامہ محمد اقبال نے اردومیں اک نئی طرز کی شاعری کی بنیاد رکھی۔ ان سے قبل "ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویسوں کے سر پر عورت سوار تھی" لیکن اقبال نے اس صنف کو خواب غفلت کی شکار قوم کو جگانے کے لیے استعمال کیا۔ ان کی شاعری نے گویا پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں اک نئی روح پھونک دی۔ آپ نے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرے مسلمانوں میں نیا جذبہ پھونکا اور اپنے 'نظریہ خودی' کے بل بوتے پران میں اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔

اقبال نے گو کہ اپنی تعلیم مغرب میں حاصل کی لیکن وہاں رہ کر انہوں نے پا لیا کہ مغربی تہذیب "شاخ نازک" پر قائم ہے اور پھر اس کی رد میں اتنی شدّومدّ کے ساتھ لکھا کہ شاید ہی مغربی تہذیب کے خلاف شاعری کے میدان میں لکھا گیا ہو۔

اردو میں آپ کی شاعری کے چار مجموعے بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز جبکہ فارسی میں چھ مجموعے اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ اور پس چہ باید کرد اے اقوام شرق ہیں۔ نثر میں اردو میں آپ نے 1903ء میں علم الاقتصاد اور 1930ء میں انگریزی میں اپنی اہم ترین تصنیف "The Reconstruction of Religious thought in Islam" لکھی۔

Saturday 20 April 2013

A worst memory in the History of PAKISTAN

A Muslimah student visits the location of he old beloved Madrassa. It was demolished by the government with the use of bulldozers.
One of the biggest female Madrassa in the whole World holding around 7000 students at a time.
May Allah accept them and accept the martyrs into Jannatul Firdaus where they may rest eternally. Ameen

Great islamic warrior


Great islamic warrior


Thursday 18 April 2013

A Painful View of BURMA

A Burman Muslim child sucks his dead mother's breast!

But who cares !!
3 Americans were killed 16 April 13 in Boston and the whole world knew about them.
Thousands are tortured, massacred and murdered every single day all over the world in Burma, Palestine, Iraq, Afghanistan , Pakistan and Syria ... Well most of the victims are Muslims ... So who cares

Just one example in Iraq, since 2003 half a million Iraqi children were killed, that's 50000 per year, that's 1037 per day, that's like 45 Boston massacres per day in Iraq for a whole decade, 1 child is killed every half hour !!!!!

But who cares !!



Monday 15 April 2013

Zara Hosla rakho manzil mil hi jae gi


UmeeD ab bhi bqi hay seher hone ki
zara hosla rakho manzil mil hi jae gi
(Syed Hasan Hamdani)

Saturday 6 April 2013

Thursday 4 April 2013

آساں ہے مسلمان کو کافر کہنا

آساں ہے مسلمان کو کافر کہنا 
ہمّت ہے تو کافر کو مسلمان کرو 


Wednesday 3 April 2013

انتخاب اہلے گلشن پے بہت  روتا ہے دل 



Monday 1 April 2013

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے 



سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے

سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ھِلاتے ہیں
تو مَینا اپنے بچے چھوڑ کر کوئے کے بچوں کو
پَروں سے ڈھانپ لیتی ہے
سُنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گِر پڑے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
سُنا ہے جب کِسی ندی کے پانی میں بَئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی رَو پہلی مچھلیاں اُس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
کوئی طوفان آجائے ، کوئی پُل ٹوٹ جائے
تولکڑی کے ِ کِسی تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خُدا وندا ، جلیل و معتبر ، دانا و بِینا ، منصف و اکبر
میرے اِس ملک میں اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر 
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔۔!!






(غزل (حبیب جالب 
اس دور کی دنیا سے گزر کیو ں نہیں جاتے 
یہ لوگ بھی کیا لوگ  ہیں مر کیوں نہیں جاتے 

ہےکون زمانے میں میرا پوچھنے والا 
ناداں ہیں جو کہتے ہیں گھر کیوں نہیں جاتے 

شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا 
ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوںنہیں جاتے 

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعا بھی ہیں لب پر 
بگڑے ہوے حالات سنور کیوں نہیں جاتے