Sunday 28 July 2013

کوئٹہ: مشتبہ خود کش بمبار شہریوں کی فائرنگ سے ہلاک

کوئٹہ: مشتبہ خود کش بمبار شہریوں کی فائرنگ سے ہلاک



۔—فائل فوٹو
کوئٹہ:کوئٹہ میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے علاقے ہزارہ ٹاؤن کو آج پھر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، منصوبہ سازوں نے افطار کے وقت خود کش حملے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن اس بار ان کی سازش دھری رہ گئی۔
خود کش حملہ آور جیسے ہی علاقے میں داخل ہوا تو پہلے سے کسی ناخوشگوار واقعے کیلیے تیار شہریوں نے اسے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
ڈی آئی جی آپریشن فیاض سنبل نے ہزارہ ٹاؤن میں ہلاک شخص کے خود کش حملہ آور ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہزارہ ٹاؤن میں مارا جانے والا شخص خودکش حملہ آور تھا اور اس کے پاس سے خود کش جیکٹ بھی تھی جسے ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔
فیاض سنبل نے بتایا کہ حملہ آور کی لاش بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کردی گئی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی گزشتہ کچھ سالوں کے دوران ہزارہ ٹاؤن میں دہشت گروں کی جانب سے ہزارہ ٹاؤن کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس طرز کا سب سے بدترین سانحہ رواں سال 16 فروری کو اس وقت پیش آیا تھا جب ایک واٹر ٹینکر میں بارودی مواد رکھ کر اسے مارکیٹ میں دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم 90 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔

Saturday 20 July 2013

اسلام پسند دوراہے پر!


اسلام پسند دوراہے پر!



muhammad-morsiڈاکٹر محمد مرسی کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر مصر کی افواج نے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے سبب انہیں معزول کر کے گرفتار کرلیا۔ ان کے ساتھ ہی میڈیا رپورٹس کے مطابق اخوان المسلون کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو بھی گرفتار کر کے اسی جیل میں بند کر دیا گیا جہاں پر مصر کے عوام پر بد ترین آمریت مسلط کرنے والے سابق صدر حسنی مبار ک کو رکھا گیا تھا۔ جیل کے باہر جیسے حسنی مبارک کے چلے جانے سے عوام خوشی سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے اسی سے ملتے جلتے ردعمل کا اظہار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر مرسی کے جانے پر بھی کیا جا رہا ہے۔

دنیا بھر کے تجزیہ کار اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔ مغرب اور مغرب کے ہم پیالہ دانشور اخوان المسلون پر ناتجربہ کاری ، غلط حکمت عملی ، پارٹی پالیسیوں کا حکومت پر اثر انداز ہونا، معیشت کا عدم استحکام اور خارجہ پالیسی کی ناکامی وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔ جب کہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے رہنما سارا ملبہ امریکا اور اسرائیل پر ڈال کر بری ذمہ ہو رہے ہیں۔ بات کوئی بھی ہو، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس انقلاب در انقلاب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور اسلام کو جمہوری اور دستوری انداز میں نافذ کرنے کے راستے مزید مشکل اور فکری طور پر مبہم ہو گئے ہیں۔

اخوان المسلون دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے زیادہ تجربہ رکھتی ہے۔ ایک طویل عرصے تک اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے کارکنوں نے اپنے عزم اور حوصلے سے حکومت قائم کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ سب مزاحمتیں صبر اور جہد مسلسل سے بالآخر دم توڑ دیتی ہیں۔ اخوان کے کارکنوں پر جو ظلم و ستم جیلوں کے اندر اور باہر ڈھائے گئے ہیں وہ انسانی ذہن میں پنپنے والے خیالات کو انسانی دنیا سے نکال کردرندوں کی آماجگاہ میں لے جانے کے لیے کافی ہیں۔ اخوان نے نا صرف مصر کے حالات کو بدلنے میں خاطر خواہ حصہ ڈالا بلکہ پورے عالم عرب میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے اپنے پیغام کو ہر درد دل رکھنے والے فرد تک پہنچایا۔ ان کے طریقہ کار کی بنیاد شروع سے دعوت اور خدمت رہی ۔ البتہ ماضی میں جب جبر سہتے سہتے حد ہو گئی تو اخوان کے کچھ نوجوانوں نے طاقت کے ذریعے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن تنظیم کے مثالی نظم و ضبط نے انہیں واپس دعوتی اور دستوری جدوجہد پر آمادہ کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باب مکمل بند ہو گیا جب ہی تو مصر کے عوام نے اپنی آزاد رائے کا وزن اخوان کے پلڑے میں ڈالا۔

یہاں ایک دفعہ پھر غور و فکر کرنے والے اسلام پسندوں کو یہ مرحلہ درپیش ہے کہ آخر کیا سقم رہ گیا تھا اخوان کی تحریک میں کہ انہیں ایک سال میں ہی مسترد کر دیا گیا۔ کیا بنیادی طور پر یہ بات ہی غلط ہے کہ جمہوریت کے راستے اسلام آ ہی نہیں سکتا؟ یا فوج کی مدد کے بغیر اسلامی انقلاب جڑ نہیں پکڑتا۔ الجزائر کی فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مصر کی فوج نے اس شبہ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ دراصل مسلم ممالک کی افواج ہیں۔ جن کا سارا ناک و نقشہ مغرب نے اپنی ضرورتوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا ہے۔یا اگر اسلام پسند ملک کے اندر کے اداروں کو قابو کر بھی لیتے ہیں تو بیرونی حملہ آوروں سے مزاحمت کیسے کریں گے؟ طالبان کا عروج و زوال اس کی مثال ہے۔ ایک اور نظریہ بھی مسلم ممالک میں مقبول ہے کہ حکومت سازی کے لئے جہدو جہد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حکمران تو عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ اچھے اعمال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اچھے حکمران عطا کر دیتے ہیں۔ بر صغیر میں تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگ اس ساری چیز کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔

ہمارا نقطہ نظر کوئی بھی ہو، ہم سب مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں یا کسی ایک تنظیم کی ناکامی اسلام کی ناکامی نہیں ہے۔ یہ وہاں کے لوگوں اور لائحہ عمل کی ناکامی تو ہو سکتی ہے لیکن اسلام کو تو بہرحال پوری دنیا میں پھیلنا ہے۔  اسلام کے نفاذ کے جتنے راستے بیان کیے جاتے ہیں چاہے وہ طاقت کےحصول کے بعد میدان جہاد سے متعلق ہوں یا محض دعوتی اسلوب تک ہی بات ختم ہو جاتی ہو،سیکولر طاقتوں کے ساتھ مفاہمت ہو یا مذہبی جماعتوں کا گٹھ جوڑ ہو ان سب کا تھوڑا بہت تجربہ پچھلی دو دہائیوں میں تقریبا ہو چکا ہے۔ ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور کہاں کہاں کمزوری رہ گئی ہے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے حالات کے مطابق کیا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے یہ آج کی تحریک اسلامی کے لیے اہم سوال ہے۔

کتابوں کا شہر


کتابوں کا شہر



لاہور میں ہونے والے 27 ویں کتاب میلے میں جانا ہوا۔ یہ کتاب میلہ دراصل لاہو رسطح کی ایک بہت بڑی سرگرمی تھی ۔پہلے یہ کتاب میلہ فورٹ ریس سٹیڈیم میں منعقد ہوتا تھا اور اب ایکسپو سنٹر لاہور میں ہوتا ہے ، کچھ ہی سال پہلے بننے والایہ ایکسپو سنٹر لاہو رکی بڑی سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہے۔ لاہور سیاسی، علمی اور تہذیبی طور پر رجحان ساز شہر ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس کی یہ حیثیت برقرار ہے۔ لاہور سے اٹھنے والی تحریکیں اپنے منطقی انجام کو پہنچیں اور ان تحریکوں کے دورس اثرات اپنے نتائج تک پہنچ کر رہے۔

دور جدید کو کمپیوٹر کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی ہر میدان میں اپنا لوہا منوارہی ہے ا ور ہر آنے والا دن اس کی نئی فتوحات کی خبر دیتا ہے۔ اب کتابیں بھی ڈیجیٹل ہونے لگی ہیں۔ اور اس جدید ٹیکنالوجی کی طرف نوجوان نسل کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ امریکہ اور یورپ میں انٹر نیٹ ،فیس بک اور ٹوئٹر کے استعمال کے باوجود چھپنے والی کتابیں لاکھوں میں ہوتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں ۔ اس لئے آنے والے دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باوجود کتاب کی اہمیت کم نہ ہوسکے گی۔ لاہور میں سجنے والا یہ کتاب میلہ ، کتاب دوستی کی رجحان کو فروغ دیینے اور پروان چڑھانے کا ایک عمدہ اور اہم ذریعہ تھا۔ اقبال نے کہا تھا کہ
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگرصاحب کتاب نہیں

صاحب کتاب ہونا بڑی بات ہے یہ ہر کس وناکس کے بس کی بات بھی نہیں۔ اس موقع پر مجھے امام غزالی ، ابن تیمیہ ، ابن جوزی، امام سرہندی،شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اور موجودہ زمانے کے صاحبان کتاب اقبال، شبلی نعمانی ،سید سلیمان ندوی، حمید الرین فراہی، اشرف علی تھانوی، عبد الماجد دریا بادی، محمد علی جوہر، سید مودودی، امین احسن اصلاحی، سید ابو الحسن ندوی، مسعود عالم ندوی، اسعد گیلانی اور نعیم صدیقی یاد آئے۔ کتاب لکھنا اتنا آسان تو نہیں۔ ویسے آج کل کے دور میں کتاب لکھنا کوئی کام نہیں رہا، ہر روز کتنی ہی نئی کتابیں چھپتی ہیں لیکن جن کتابوں کو پذیرائی حاصل ہو وہ کم ہی لکھی جاتی ہیں۔ ان کے لیے دلسوزی ، رتجگا اور اخلاص کے ہتھیار درکار ہوتے ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے کتاب کے ساتھ دوستی سے انکار نہیں ۔ لیکن جن کو کتابوں کے بغیر نیند نہیں آتی اور جن کا اوڑھنا بچھونا کتاب ہوتی ہے وہ شاید اور لوگ ہوتے ہیں اور انہیں دنیا کا کوئی اور کام نہیں ہوتا۔

ایک زمانے میں لائبریریاں علم دوستی، کتاب دوستی کو فروغ دیتی تھیں۔ آج بھی دیتی ہوںگی۔ لیکن لائبریوں سے استفادہ کرنے والے گنے چنے لوگ ہوتے جنہیں کتابوں کا لپکا بلکہ چسکا ہوتا ہے اب تو یہ بھی ہونے لگا ہے گھروں کی سجاوٹ کا ایک ذریعہ کتابیں بھی ہوگئی ہیں ۔ ایک ہی رنگ کے درو دیوار ، اسی رنگ کے پردے اور شیلف میں اس رنگ کی سجی کتابیں۔

ایکسپو سنٹر میں کتابوں کا شہر ،واقعتاً خوبصورت شہر تھا۔ بچوں ، بوڑھوں خواتین، مردوںاورنوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کتاب میلے کی رونق تھی۔ سٹالز میں نمایاں دینی کتب کے سٹالز تھے، سکول کے بچوں کے لئے نئی طرز کی کتابیں، نئے نئے ڈیزائن ، کتابوں کے ساتھ CD’sیعنی بولتی کتابیں ، انگریزی کتب کے سٹال پر کتابوں کی ایک دوسری دنیا تھی۔ ناول ، ڈرامے، ریسرچ تھیسس، مغرب، اسلام، اکنامکس ۔ بچوں کے حوالے سے نصابیات، سکولنگ کام کرنے والے زیادہ تر ادارے کراچی سے تعلق رکھنے والے تھے۔بچوں کے حوالے کام کی کئی جہتیں ہیں ۔ جس میں تمام تربیت وتہذیب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ گو کہ کراچی اب وہ کراچی نہیں رہا ۔جو پہلے ہوتا تھا جہاں علم و ادب کی سرپرستی ہوتی تھی۔ اب تو یہاں بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ کا راج ہے۔ بی بی سی اور ریڈیو جرمنی نے بھی اپنے اپنے اداروں کی ترویج و ترقی کے سٹال لگائے ہوئے تھے۔ بی بی سی کے سٹالز پر وسعت اﷲ خان موجو د تھے جبکہ وائس آف جرمنی کے سٹال پر ہمارے دوست تنویر شہزاد۔

چند سٹال زیادہ توجہ لے رہے تھے۔ آفاق نصابی کتب کا ادارہ ہے۔ اس کے سٹال پر عمر وسیم ، سیف الرحمن ، عثمان ایوب مل گئے۔ کتابوں کے اس شہر میں لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید پراچہ ، نئی بات کے ایڈیٹر عطاء الرحمن ، دنیا نیوز کے کالم نگار عامر خاکوانی ، جنگ کے سید ارشاد عارف اور رئوف طاہر، سید وقاص جعفری اور نذیر احمد جنجوعہ بھی علم دوستی کا دم بھرتے نظر آئے۔ جماعت اسلامی دینی جماعت ہے مگر اس کے ساتھ علمی وفکری اور ، عصر حاضر میں اسلام کا حرکی تصور پیش کرنے والے سید مودودی کی جماعت ۔اظہر اقبال حسن، ذکر اﷲ مجاہد، عبد العزیز عابد اور ظہور وٹو سے بھی ملاقات رہی۔ یہ سب اسلامی جمعیت طلبہ کے واسطے سے جماعت میں آئے۔

لبرٹی، الائیڈ، گابا، سنگ میل ، مکتبہ اسلامیہ، اسلامک پبلی کیشنز، دارالسلام ڈوگر، مکتبہ عائشہ، الفیصل ، انجمن ترقی اردو، نشان منزل، اذان، احسن الکلام،ترک کتابوں کا ہارمنی ، نگارشات، آکسفورڈ ، دارالہدیٰ، ریڈنگز، ملٹی لائن پیر ا مائونٹ، مطبوعات سلیمانی اور خدام القرآن نمایاں تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ایرانی کتابوں کا اسٹال موجود تھا ،جہاں پرانی کتب بھی حاصل ہوجاتی ہیں۔ پنجاب حکومت کے بعض ادارے اپنا اپنا سٹال سجائے بیٹھے تھے اورلوگوں کی رہنمائی کررہے تھے۔ یہ کتاب میلہ ایک مثبت اور رجحان ساز سرگرمی تھی جس سے کتاب دوستی کو فروغ ملا۔ کتاب دل و نظر کے ساتھ ساتھ معاشروں کو بھی انقلاب سے آشنا کرتی ہے۔

نبی مہربانؐ پر نازل ہونے والی کتاب ’’ القرآن‘‘ نے پہلے مکہ پھر سارے عرب کو انقلاب سے آشنا کیا تھا اور انہوں نے بہت ہی کم اور تھوڑی مدت میں دنیا کو بدل ڈالا۔ جو خود سیدھی راہ سے دور تھے وہ دوسروں کو راستہ دکھانے والے بن گئے۔ لوگ بدلے، معاشرہ بدلا اور زندگی کے تمام اطوار بدل گئے۔ آج بھی اس کتاب انقلاب سے وابستگی معاشروں میں انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ ضرور ت ہے کہ سچے جذبوں اور اخلاص کے ساتھ اس کا دامن تھاما جائے۔ دور جدید کا انسان بدلے گا تو معاشرہ بدلے گا ۔ جب معاشرہ بدلتا ہے تو تبدیلی کے اس عمل کا آغاز ہوجاتا جس سے قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے اور عروج و سربلندی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

پاکستان کا مطلب کیا ؟؟؟

پاکستان کا مطلب کیا ؟؟؟


ہم نے بحیثیت قوم جھوٹ سے لے کر منافقت تک اور کرپشن سے لے کر قتل و غارت تک سب میں خوب ترقی کی ہے پر جس چیز میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ یہ ہے کہ ہم ہروقت اپنی تاریخ، قومی و نظریاتی ہیروز اور ان کی تقاریرکو Destroy کرکے اس انداز میں نئی نسل کے سامنے پیش کر تے رہتے ہیں کہ ان حوالوں سے ان کے ذہن کنفیوز ہو جائیں اور ایسے عناصر اپنے مقاصد میں اس حد تک کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں کہ عوام ان سے اپنے تعلق پر فخر کرنے کی بجائے بددل ہوتے جاچکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ تباہی اور بربادی کرنے والے یہ اقدامات یہاں رکتے نظر نہیں آ رہے بلکہ اب یہ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جزبوں ومقاصد سے بھرپور وہ نعرہ کہ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لاالہ الاللہ محمد الرسول اللہ جس کے بارے میں ہمارے بزرگ اور اساتذہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ یہی وہ نعرہ ہے جو حقیقت میں تخلیق پاکستان کی ایک اہم بنیاد بنا اسکو بھی نئے الفاظ ومعنی پہنائے جا رہے ہیں۔

کچھ عرصے سے ایک بڑے میڈیا گروپ سے ایک نعرہ دیکھنے اورسننے کومل رہا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے سوا۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ میں اپنی عادت سے مجبور کافی وقت یہ سوچتا رہا کہ آخر اس نئے نعرے کوایجاد کرنے کے اغراض و مقاصد کیا ہو سکتے ہیں کیا یہ ایسی ہی سوچ کی پیداوار تو نہیں جو کافی عرصے سے اس ملک کی نظریاتی اساس پر حملہ آور ہے اورہر حالت میں اسے سیکولر اور آزاد خیال ریاست ثابت کرنے پراور بنانے پر کوشاں رہتے ہیں اور جب یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ یہ وہی میڈیا گروپ ہے جس نے مشرف کی روشن خیالی کی آڑ میں حدود آرڈینینس میں حیأ باختہ ترامیم کروانے کے لیئے ذرا سوچیئے کے عنوان سے ایک جاندار مہم چلائی تھی اور اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب بھی ہو گئے تھے تو خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

کوئی ذی شعور تعلیم کی اہمیت سے انکارنہیں کر سکتا تعلیم کے بغیر معاشرہ بالکل اس جسم کی مانند ہے جوزندگی اور روح سے محروم ہو چکا ہے اور اب گلنا سڑنااور بدبودار ہونا اس کا مقدر بنتا جائے گا۔آج اگر ہم بحیثیت قوم پستی و ذلت اور انتشار کا شکار ہیں اورتقریباً ہمارے ساتھ ہی آزاد ہونے والے ممالک عزت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں تودونوں میں بنیادی فرق تعلیم ہی ہے انہوں نے تعلیم کوآگے بڑھ کر گلے لگا لیا اور ہم نے تعلیم کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک کیا۔پر میرا اصل سوال یہ ہے کہ لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ والے پاکستان کو ہی پڑھے لکھے پاکستان کی ضمانت کیوں نہیں سمجھا جا رہا ؟؟؟

جب کہ اسلام جہالت کے اندھیرے ختم کر کے انسانیت کو شعور بخشنے کے لیئے ہی تو آیا تھا ایسا اسلام جس کی تعلیمات کا پہلا لفظ اقرا سے شروع ہو تا ہو اور پھر نبی مہربان ﷺ کا ایک ایسے خطّے کی طرف اشارہ کر کے فرمانا جو عرب سے سب سے دور تصور کیا جاتا تھا کہ تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے سے مراد اپنی امت کو تعلیم کے حاصل کرنے کی اہمیت کا اندازہ دلوانا تھا کہ کتنی ہی تکالیف اٹھانا پڑھیں تعلیم حاصل کرنا اسلامی معاشرے کی ضرورت بھی ہے اور حکم بھی۔ اور پھر ایک ایسے معاشرے میں جہاں خواتین کو انسانی حقوق بھی حاصل نہ ہوں وہاں یہ فرمایاکہ تعلیم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے علم اور انسان دوستی کا اس سے بڑ ھ کربہترین نمونہ کیا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ جانتے تھے کہ وہ جس معاشرے کی تشکیل اسلامی خطوط پر کرنے جا رہے ہیں اس معاشرے کا مستقبل انہی خواتین کی گودوں سے پروان چڑھنا ہے تو ایسے میں جب تک معاشرے کی عورت تعلیم یافتہ نہیں ہوگی ایک شعوری اسلامی معاشرہ کبھی مستقل بنیادوں پرقائم نہیں ہو پائے گا۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات اخذ کرنا کتناآسان ہو جاتاہے کہ جہاں صحیح معنوں میں لاالہ اللہ محمد الرسول اللہ والا نظام نافذہوگا وہاں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہو گی تو پھر کیوں نہ ہم نئے نئے نظام اور نعرے بنانے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اسلام کو ہی اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کرنے کے لیئے بھر پور Compain چلائیں تاکہ ہمارا ملک مدینہ جیسی فلاحی ریاست کے ساتھ ساتھ تعلیم کے عظیم مراکز بغداد اور بخارہ کا نقشہ بھی پیش کر سکے۔

سیاسی منظرنامہ اور طالب علم

سیاسی منظرنامہ اور طالب علم


’آج تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے‘
’پیپر کینسل!‘
’راستے بند ہیں۔ کالج کیسے پہنچیں؟‘
یہ وہ چند جملے ہیں جن کی بازگزشت آج کل ہماری زندگی میں آئے روز سنائی دینے لگی ہے۔ اور جن کی وجہ سے ہمارے معصوم ذہن جھنجھلاہٹ، خوف اور ناامیدی کا شکار رہتے ہیں۔ جی ہاں یہاں ہمارے ملک کے اس طبقے کا ذکر ہے جسے ’طالب علم‘ یا ’اسٹوڈنٹ‘ کہا جاتا ہے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو بذات خود تو کسی ملکی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ذمہ دار نہیں ہوتے لیکن ہر سیاسی سانحہ کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اب یہ سانحہ کسی جدی پشتی ساستدان کا وزارت سے بیدخلی ہو یا کسی منتخب حکمران کا زندگی سے بیدخل کیا جانا۔ ٹارگٹ کلنگ کے نام پہ قتل و غارت ہو یا سی این جی کی قیمتوں کا مسلئہ۔ آپس کی مخلافتوں اور مفاہمتوں کا معملہ ہو یا ووٹ کے حصول کی جنگ۔ نقصان ہر حال میں انہیں اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ اب دیکھیے ناں اس سیاسی منظرنامے میں ’احتجاج‘ اور ’ہڑتال‘ کے بغیر تو کچھ ہونا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر ہڑتال کے دوران تعلیمی ادارے کھلے رہ گئے تو ہڑتال کامیاب کیسے ہوگی؟ خدانہ خواستہ کامباب ہو بھی گئی تو احتجاج کے لئے تو تمام راستے بند کرنے پڑیں گے۔ اب اگرآپ بھی میری طرح طالب علم ہیں اور آپ کا پرچہ ہے اور امتحانی مرکز پہنچنا ضروری ہے تو ہوائی جہاز چارٹرڈ کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ پیدل پہنچنے کا فیصلہ کریں۔ ایسی صورت میں گھر والوں سے ملنا مت بھولیے گا کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں خاص کر اگر کراچی میں رہتے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راستے میں ہی آپ کو پرچہ ملتوی ہونے کی خوشخبری مل جائے اور آپ رات بھر جاگ کر کی جانے والی محنت پر پانی پھرتے ہوے واپس لوٹ آیں۔

مجھے یاد ہے ہم نے اپنی اسکول کی کتاب میں پڑھا تھا اور یقینا ہمارے ڈگری ہولڈر حکمرانوں نے بھی پڑھا ہوگا کہ نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ پر یہاں تو امید و نا امیدی کے بھنور میں پھنسے عجیب معمار پروان چڑھائے جا رہے ہیں جو اب تک یہی فیصلہ نہیں کر پارہے کہ افسوس کس پر کرنا ہے؟ اپنے تعلیمی سیشن کے ایک اور دن کے ضایع ہونے پر یا کراچی میں لاشوں کی آج کی گنتی پوری ہونے پر۔ سوگ کس کا منایا جائے؟ خوف و دہشت کا شکار اپنی مرنے والی صلاحیتوں کا یا کوئٹہ میں اجڑے انگنت خاندانوں کا۔ احتجاج کس پر کریں؟ پرچہ ملتوی ہونے پر یا مجرموں کی عدم گرفتاری پر۔۔۔

اسلام بیزار طبقے کا نظام تعلیم پر ایک اور حملہ

اسلام بیزار طبقے کا نظام تعلیم پر ایک اور حملہ


نظام تعلیم،نصاب تعلیم اور تعلیم کے مقاصد کا تعین ہی دراصل کسی قوم کے مستقبل کے تاریک یا روشن ہونے کا تعین کرتے ہیں۔ کسی بھی تعلیمی نظام کے مقاصد کو اُس قوم کے مقصد وجود، اس کے اجتماعی نصب العین اور قومی امنگوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔

نظام تعلیم کی اسی اہمیت و کردار کی وجہ سے پاکستان کی اسلامی شناخت کے دشمن اور اسلام سے بیزار عناصر گاہے بگاہے ذرائع ابلاغ کے ذریعے تعلیمی نظام پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں جس کا مقصد نسل نو کو اسلام سے بیزار کرنا ہے۔ ایسی ہی ایک تازہ کوشش پاکستان کے نامور”گلوکار” شہزاد رائے کی طرف سے ۲ مارچ کے ٹی وی پروگرام “چل پڑھا”میں سامنے آئی ہے۔

دوسرے تمام اسلام بیزار عناصر کی طرح موصوف نے بھی اپنے آپ کو پاکستان کا مخلص اور اسلام کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ “تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ فرسودہ تعلیمی نظام ہے”۔۔۔۔ناظرین کے سامنے اپنی اسلام بیزاری پر پردہ ڈالنے اور انہیں بیوقوف بنانے کیلئے اس جملے کو بھی پروگرام کا حصہ بنایا گیا کہ “اسلام نصابی کتب میں تو بہت نظر آتا ہے لیکن معاشرے میں نظر نہیں آتا”۔

سیکولر اور دین بیزار طبقے کی سب سے بڑی الجھن یہ ہے کہ ان کا تصور زندگی توحید کا قائل نہیں۔ وہ نجی زندگی میں تو خدا کے وجود کے قائل ہیں لیکن اجتماعی زندگی میں خدا کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اُس سے رہنمائی لی جائے۔ان کے خیال میں مذہب چونکہ ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر انسان کا مذہب مختلف ہو سکتا ہے، اس لیے مذہب کو ریاست کے معاملات دخل نہیں دینا چاہیے۔ یہاں “مذہب” کے عنوان میں اسلام سمیت تمام مذاہب کو زیر بحث سمجھا جانا چاہیے۔

بالفاظ دیگر، چونکہ کوئی مذہب ،بشمول اسلام کے، سچا مذہب نہیں اور اسی وجہ سے اس قابل بھی نہیں کہ انسان کے اجتماعی معاملات۔۔۔مثلا” سیاست،حکومت، قانون، معیشت، تعلیم، ادب اور تاریخ وغیرہ۔۔۔۔میں راہنمائی کر سکے۔ مزید یہ کہ مذہب/اسلام وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں، انسان کی ضرورتوں اور رجحانات {مثلا جنس پرستی کی حمایت، شراب کی اجازت، مخلوط محافل وغیرہ} کا ساتھ نہیں دے سکتا، اس لیے مذہب کو مسجد میں قید کر دیا جائے اور اجتماعی معاملات میں ہدایت کا منبع اجتماعی انسانی شعور اور عقل کو تسلیم کر لیا جائے اور اجتماعی معاملات سے اللہ کی آسمانی وحی کو نکال باہر کیا جائے۔

یہی زندگی کا منقسم، مشرکانہ اور توحید سے بیگانہ تصور زندگی ہے جس کے زیر اثر شہزاد رائے صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ “اردو ایک زبان ہے۔اردو آپ پڑھ رہے ہیں۔سوشل سٹدیز {معاشرتی علوم} پڑھ رہے ہیں۔اس میں اسلامیات {اسلام کی تعلیمات} کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟؟”

یہاں موصوف بڑی خوبصورتی اور معصومیت کے ساتھ ناظرین کو الجھانے اور اُن کے اذہان کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ زبان کو کسی بھی قوم کے رہن سہن،تمدن، عقائد، تصورات اور نظریہ زندگی۔۔۔۔۔جسے روایتی اصطلاح میں مذہب کہتے ہیں۔۔۔۔سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ تمام چیزیں زبان کے اندر اس طرح رچی بسی ہوتی ہیں جیسے انسان کی رگوں میں شیر مادر یا پھر کچھ اس طرح ایک دوسرے میں جذب ہوتی ہیں جیسے دریا سمندر میں اتر جائے۔

جس ملک کی ۹۸فیصد آبادی مسلمان ہو، کیا اس ملک کی قومی زبان کو اسلام، اسلام کی تاریخ، اسلام کے ہیروز سے کاٹ کر پڑھایا جا سکتا ہے؟ یقینا زبان خلا میں جنم نہیں لیتی اور نہ ہی جنگلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ اس لیے زبان کو اہل زبان کی سوچ، مذہب، تاریخ اور مقصد وجود سے الگ کر کے نہ تو پڑھا جا سکتا ہے اور نہ ہی پڑھایا جانا چاہیے۔

مذکورہ پروگرام کے میزبان جناب شہزاد رائے صاحب نہ تو خود اسلام پسند ہیں اور نہ ہی وہ تمام لوگ جنہیں انھوں نے “سائینسی محقق” اور “ماہر تعلیم” بنا کر پیش کیا۔بلکہ یہ نام نہاد محقق اور ماہرین تعلیم اپنی نہاد میں اسلام بیزار ہیں اور اپنی اسی سوچ کی وجہ سے پاکستان میں جانے پہچانے ہیں۔مزید یہ کہ جس نظام تعلیم کو موصوف نے “مثالی” بنا کر پیش کیا اس کی جڑیں برطانیہ کے نظام تعلیم میں پیوست ہیں۔ جبکہ برطانیہ کا نظام زندگی اور معاشرہ ہر گز اسلام کا مطلوب نہیں، وہ اسلام کہ جس پر پاکستان کے وجود کا جواز ہے اور جس کے بغیر پاکستان دنیا کے باقی ملکوں کی طرح صرف ایک ملک ہے ، بغیر نظریہ اور مقصد وجود کے۔

موصوف نے اپنے پروگرام میں دو مختلف سکولوں کی کلاسز کا منظر دکھا کر یہ تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جیسے پاکستان میں ۹۸فیصد عیسائی اور ہندو آباد ہیں اور اُن کی نئی نسل کو زبردستی اسلام کی تعلیمات دی جا رہی ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان میں ۹۸ فیصد مسلمان آباد ہیں۔ اتنی بڑی اکثریت کی نسل نو کو اس کے مذہب، نبی مہربان صل اللہ علیہ وسلم کے مقام، اللہ کی عظمت اور اسلام کے ہیروز سے کیا صرف اس لیے بیگانہ کر دیا کہ ۲ فیصد اقلیت کی دل آزاری نہ ہو۔ اس صورتحال کا کوئی حل تلاش کیا جا سکتا ہے مگر اسلام بیزار طبقے کی خواہشات کے مطابق پاکستان کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کو اسلام سے بیگانہ نہیں کیا جا سکتا۔

موصوف نے معروف کالم نگار جناب جاوید چوہدری کو بھی اپنے پروگرام میں شامل کیا۔ وہ کہتے ہیں “بد قسمتی سے ہم نے یہ سوچ لیا کہ یہ پاکستان جو ہم نے بنایا تھا کہ ہندو کی دشمنی میں بنایا تھا جبکہ ہم نے اس لیے بنا کہ ہمیں آزادی چاہیے تھی”۔۔۔تو جناب محترم کالم نگار صاحب، اسے کہتے ہیں ڈنڈی مارنا۔ اول تو آپ کا میڈیا نسل نو کو یہ بتاتا نہیں کہ پاکستان کیوں بنایا گیا تھا، مستزاد یہ کہ “پڑھنے لکھنے کے سوا، پاکستان کا مطلب کیا” کے نعرے ایجاد کر کے قوم کو ذہنی سطح پر الجھانے کی کوشش کرتا ہے یا پھر یہ تاثر پیش کرتا ہے کہ ہمارے وجود کا جواز ہندو کی شاطر ذہنیت اور ہمارے مفادات کی متحدہ ہندوستان میں مخالفت کرنا تھی۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ قائد اعظم کے الفاظ میں “ہم نے پاکستان کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ ہم یہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں” اور تحریک پاکستان کے قائدین بالخصوص علامہ اقبال اور قائد اعظم یہ دیکھ چکے تھے کہ متحدہ ہندوستان میں اسلامی نظام حکومت و معاشرہ کا قیام اور اسلامی اصول و روایات کا نفاذ ہندو کی عددی برتری کے باعث ممکن نہیں۔

ایک اور نام نہاد اور اسلام بیزار دانشور مذکورہ پروگرام میں کہتے پائے گئے کہ ” کریکلم جیسا بھی ہو، ایسا نہ ہو کہ بچوں کے دلوں میں کسی طبقے، کسی مذہب یا کسی ملک کے خلاف نفرت پیدا ہو”۔۔۔تو جناب دانشور صاحب سے میرا سوال ہے کہ اگر مسلمانوں کا نظام تعلیم مسلمانوں پر یہ واضح نہیں کرتا کہ اسلام کیونکر دوسرے مذاہب اور نظام ہائے زندگی سے مختلف ہے، کیونکر اسلام حقانیت پر مبنی ہے اور دوسرے تمام مذاہب و نظام باطل ہیں اور کیوں دوسرے تصورات زندگی اور نظام ہائے زندگی خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہیں تو پھر ایسے نظام تعلیم کو مسلمانوں کا یا کسی مسلم ملک کا نظام تعلیم نہیں کہنا چاہیے۔پھر آپ نے یہ کیسے فرض کر لیا کہ ان حقیقتوں کے ذہن نشین کرنے سے نفرت پھیلے گی۔ اگر نسل نو کو یہ بتایا جائے کہ اسلام ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنی نجی زندگی اپنے مذہب کے مطابق گزارنے کی اجازت دیتا ہے تو مجھے نفرت پیدا ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

جہاں تک بات ہے کسی دوسرے ملک سے نفرت کا تو غالبا” دانشور صاحب کا اشارہ بھارت کی طرف ہے۔ تو عرض ہے کہ جس ملک نے پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اپنا کردار پوری خوش اسلوبی سے ادا کیا ہو، جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہو، جس نے سیاچین سے لیکر سرکریک تک مسائل کھڑے کیے ہوں اور جس نے ایک سال تک پاکستان کا حصہ رہنے والی ریاستوں، جوناگڑھ اور مناودار، پر بزور قوت قبضہ کر رکھا ہو، اُس ملک کے گھنائونے کردار سےنسل نو کو کیوں آگاہ نہ کیا جائے؟؟

جناب شہزاد رائے صاحب مذکورہ پروگرام کے شروع میں کہتے “پچھلی قسط میں ہم نے دیکھا کہ ہمارے نصاب کی کتابوں کا بوسیدہ اور فرسودہ پن کس طرح تبدیلی کے راستے میں دیوار ہے”۔ پھر موصوف اس اجمال کی تفصیل پیش کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں “اردو اور معاشرتی علوم میں اسلامیات کیوں پڑھائی جاتی ہے؟”۔یعنی بین السطور ناظرین کے اذہان میں یہ بات اتارنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام، اس کی تعلیمات، مسلمانوں کے ہیروز، نبی صل اللہ علیہ وسلم کا مقام وغیرہ سب بوسیدگی اور فرسودہ پن کی علامتیں ہیں۔ جب تک ہم بوسیدگی کی ان علامتوں کو ختم نہیں کریں گے، ترقی نہین کر سکتے۔ یہ ہے نام نہاد ترقی پسند اور اسلام بیزار طبقے کا ذہنی سانچہ۔

اس تمام معاملے پر حکومت سے کسی قسم کی شنوائی یا اقدام کی توقع رکھنا عبث ہے کیوں کہ حکومت پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی اسلام بیزار قوتوں کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ذرائع ابلاغ میں بھی انھی عناصر کا غلبہ نظر آتا ہے۔ یہ ذمہ داری اسلام پسند طبقے کی ہے ہر دستیاب ذریعے سے شہزاد رائے اور اس قبیل کے دوسرے اسلام بیزار عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔

نوٹ:
اسلام پسندوں سے میری مراد تمام وہ لوگ ہیں جو پاکستان میں اسلامی نظام زندگی و حکومت کا قیام چاہتے ہیں اور اسلام کو ایک مکمل ضابطہء حیات سمجھتے ہیں جبکہ میں نے سیکولر سوچ کے حامل لوگوں کیلئے “اسلام بیزار” کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اگر کسی کو چبھن محسوس ہو تو کوئی متبادل اصطلاح بتا دے کیوں کہ مجھے تو یہی اصطلاح اس طبقے کی سوچ کی صحیح ترجمان محسوس ہوتی ہے۔

مذکورہ پروگرام اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے

پھولوں کے پیراہن

پھولوں کے پیراہن


کئی دن سے متواتر بازار جانا پڑرہا تھا۔ وہ بھی بھری دوپہر میں۔ سبب کزن کی شادی کی تیاری میں خالہ جان کا ہاتھ بٹانا تھا۔ دوپہر میں جانے کا انتخاب یوں کیا کہ اس وقت دکان دار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور توجہ سے بات کو سن لیتے ہیں۔ یوں خریداری بھی اطمینان بخش طریقے سے ہوجاتی ہے۔ سو ہم خالہ بھانجی چار بجے کے قریب نکلتے۔ راستے میں فالسے والے ملتے، ٹن ٹن کرتے قلفی اور گولے گنڈے والے ملتے۔ باقی تو سب گھر بند کیے یو پی ایس اور جنریٹر کی چنگھاڑوں میں “آرام” کررہے ہوتے۔ بس ایک ہی ننھی مخلوق دیکھی جو بھری دوپہر میں وزنی بستے پیٹھ پر لادے، دو دو چار چار کی ٹولی میں اس گلی سے اُس گلی میں ہنستی بولتی چلی جارہی ہوتی۔

یہ منظر روزانہ ہی دیکھنے میں آتا کہ نرسری سے لے کر مڈل کلاسوں تک کے بچے جھکی کمر کے ساتھ ٹیوشن پڑھنے گھروں سے نکلے ہوئے یا کچھ بچے بچیاں سپارے ہاتھ میں لیے مدرسوں کی طرف چلے جارہے ہوتے۔ ہم بچوں کے بارے میں باتیں کرتے جاتے اور رحم بھی کھاتے جاتے۔

ایک چیز جو مشاہدے میں آئی، وہ ایسی تھی کہ جس نے مجھے قلم اُٹھانے پر مجبور کردیا۔ وہ تھے ان کے لباس! اکشر بچیاں موٹی موٹی جینز کی پتلونوں میں پھنسی ہوئی اور بغیر آستین کی بنیان جیسی چھوٹی سی قمیض یا صرف کندھوں کے اسٹیپ پر مشتمل نیٹ کے فراک اور مدرسے کی ضرورت پورا کرنے کے لئے اسی پر ایک دھجی نما دوپٹہ بھی گردن پر پڑا ہوتا۔ وزنی بیگ اُٹھانے میں بچے جھکے پڑتے اور پیچھے سے قمیض اُٹھ جاتی۔ یہ ہمارا پہناوا تو نہیں اور اس قدر کھلا لباس موسم سے مطابقت بھی تو نہیں رکھتا۔ اب ذرا اُس جگہ جا کر دیکھیے، جہاں یہ ٹیوشن پڑھنے جاتے ہیں۔ اکثر گھروں میں فرشی نشست ہوتی ہے۔ جہاں محلے کے کئی گھروں کے بچے اکھٹے بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ اس پھنسی ہوئی جینز میں زمین پر جھک کر بیٹھنا کس قدر مشکل کام ہے! وہ مائیں جو محض اپنی آسانی کے لئے یہ لباس پہنا کر بھیجتی ہیں، وہ ان تکلیفوں کو محسوس نہیں کرتیں، کیوں کہ انہوں نے اپنے بچپن میں اس قسم کے لباس نہیں پہنے تھے۔ یہ لباس تو اسی زمانے کا تحفہ ہیں۔ یہ بچیاں اس حلیے میں کیوں نظر آتی ہیں؟ اگر ان مائوں سے پوچھا جائے تو یہی جواب ملے گا کہ بازار میں یہی کچھ بک رہا ہے تو ہم خرید لیتے ہیں۔ حالانکہ جتنے پیسوں میں ایک ایسا عریاں لباس ملتا ہے، اتنے ہی پیسوں میں کاٹن یا لان کے چھوٹے چھوٹے پرنٹس والے کپڑے خرید کر شلوار قمیض، ٹرائوزر، فراکس بڑے آرام سے بنائے جاسکتے ہیں۔ یقین کیجئے، ایک کے بجائے دو جوڑے بڑے آرام سے بن جائیں گے جو آرام دہ ہونگے، پسینہ جذب کرسکتے ہوں گے۔ اب بچے زمین پر بیٹھیں یا پارک میں جھولا جھولیں، انہیں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔

یہ تو بچوں کے جسمانی آرام کا ذکر تھا۔ اب ذرا دیکھیں کہ جو پہناوے بچیوں کو آج کل پہنائے جارہے ہیں، ان کے کتنے دور رس اثرات ہیں جس پر مائیں غور کرنے کی زحمت بھی محسوس نہیں کرتیں۔ جب ایک چھوٹی سی بچی ننگے بازوئوں والی فراک اور نیکر پہن کر گھر سے نکلتی ہے، گڑیا سی لگتی ہے۔ دس روپے ہاتھ میں دبائے “چیز” لینے محلے کی دکان پر آتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ دکانوں پر کھڑے فالتو اور آوارہ افراد اور محلے کے ہی لڑکے، میڈیا کی دی ہوئی گندگی اور آلودہ ذہنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، وہ ان پھول سی بچیوں پر گندی نظر ڈالتے ہیں، زبردستی ان کے بازوئوں پر مذاقاً چٹکیاں لیتے ہیں۔ شام کے وقت جب محلے کے بچے کرکٹ کھیلنے گلی محلے میں جمع ہوتے ہیں، ان ہی کے درمیان یہ بچیاں اپنے معصومانہ کھیل، پہل دوج اور دوڑ بھاگ کے کھیل کھیل رہی ہوتی ہیں۔ وقت سے پہلے ہی بڑے ہوجانے والے یہ چھوٹی عمروں کے لڑکے اشتہارات کی بولی بولتے ہیں، رٹے رٹائے ڈائیلاگ بولتے اور آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو نازیبا اشارے کرتے ہیں۔ آخر کس نے کہا تھا کہ اپنی معصوم بچی کو “باربی ڈول” بنا کر گلی میں کھیلنے بھیج دو؟؟

سب سے ذیادہ گِلہ مجھے ان والدین سے ہے، جن کی بچیاں آٹھ سے تیرہ سال کی اسٹیج میں ہوتی ہیں۔ ماں باپ بہت بے خبر، روشن خیال اور لبرل بن کر ان کو نامناسب لباسوں میں لیے سڑکوں پر گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں جہاں یہ اَس حلیے میں جاتی ہیں، دکان دارحضرات، آئسکریم پارلرز کے افراد اور ویٹرز، گلی محلے والے، سبزی والے، ان پر جو نگاہ ڈالتے ہیں، حیرت ہے کہ والدین کو تیر بھالے بن کر کیوں نہیں لگتیں!
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آئے دن تو ہم معصوم جانوں کے ساتھ ہونے والے روح فرسا واقعات تواتر سے اخبارات میں پڑھ رہے ہیں۔ ان المناک داستانوں کے پس منظر میں جائیں، تو آپ کو ایک طویل قطار بے حیائی کے بیج کاشت کرنے والوں کی نظر آئے گی۔ ان میں ماڈلز، اداکارائیں، فلمی اور اشتہاری صنعتوں سے وابستہ افراد، نیٹ اور موبائل کی ایک کلک پر سب کچھ حاضر کردینے والی گلیمرس دنیا اور بہت کچھ ملے گا۔ انسان کو بھیڑیا اور درندا بنانے کی اتنی ساری فیکٹریاں لگی ہوں تو آپ اپنے دفاع سے اتنے غافل کیسے ہیں؟

کسی بھی نجی محفل میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کا ذکر کر بیٹھیں، تو ہر شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ان نکات سے متفق اور بے حد دل گرفتہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر کیا اسکا علاج محض ماتم اور سینہ کوبی ہے؟ اس بے حیائی کے فروغ میں کس کا کتنا حصہ جارہاہے اور اس پر غور کرنا، اور اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کرنا۔۔۔ ان نکات پر دھیان دینے کو کوئی تیار نہیں۔ وہ خواتین جو مختلف چینلز کی پُر کشش نشریات کے زیرِ اثر رہتی ہیں، وہ تصور میں اپنے آپ کو انہی ماڈلز اور اداکارائوں کے لباس پہنے محسوس کرتی ہیں۔ اور وہ یہ جانتی ہیں کہ مخصوص خاندانی اور معاشرتی دبائو کے تحت وہ یہ نہیں کرسکتیں، تو وہ یہ شوق اپنی معصوم پھول جیسی بچیوں کے ساتھ پورا کرکے تسکین حاصل کرتی ہیں۔ لیکن ان کی تسکین ان بچیوں کے لیے کیسی وبالِ جان ہوسکتی ہیں، اس کا احساس ہے؟؟ اس کا ایک پہلو اور بھی تو ہے۔۔۔ ابھی تو آپ انہیں یہ تکلیف دہ اور واہیات لباس پہنا کر خوش ہوجاتی ہیں، لیکن چندسال بعد جب وہ بڑی ہوجاتی ہیں اور ان پر معاشرتی اور مذہبی حدود کا اطلاق ہونے لگتا ہے، اب آپ ان پر پابندیاں لگانی شروع کرتی ہیں۔ انہیں آستین والے لباس، اسکارف اور عبایا پہنانا چاہتی ہیں تو ایک تصادم پیدا ہوتا ہے۔ حیا کا وہ بیج جو ابتداء میں مار دیا گیا، اس میں پتے اور پھول لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں سے بغاوت جنم لیتی ہے اور ہماری سماجی اقدار کہیں بہت دور کھڑی نظر آتی ہیں۔

ہمارے دین نے جو ثقافت اور سماجی اقدار ہمیں دی ہیں، وہ ہیرا ہیں۔ ان کے سوا جتنے بھی لائف اسٹائل ہیں وہ کنکر ہیں، پتھر ہیں اور آگ ہیں۔ ہیرا مسترد کردینے کا مطلب باقی تین ممکنات کا انتخاب ہے۔ اس لیے اپنی پھول پری جیسی بچی سے پیار کا حق ادا کیجیے، اسے وہ پیراہن دیجیے جو اسکی حفاظت کا ضامن ہو، اور مستقبل کے معاشرے میں وہ ایک خود اعتماد اور باوقار خاتون ثابت ہو۔

کیا احساس ہے باقی؟

کیا احساس ہے باقی؟

اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے، کہنے کو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی ہے لیکن ایک نہیں کئی پیغام چیخ چیخ کر سنا رہا ہے یہ ملک پاکستان کے غریب اور مفلس کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے ساتھ ہی ان سیاسی لیڈروں، چوروں اور لٹیروں، جاگیرداروں اور وڈیروں، گیلانیوں اور زرداریوں، حاجیوںاورشریفوں ، بھتہ خور دہشت گرد فطرانہ خوروں، لبرلز اور روشن خیالوں کا منہ چڑا رہی ہے جو ایک عرصے سے ملک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں لیکن صرف اس ملک سے اپنی تجوریاں بھر سکے یا معاشرے میں اتنی بڑی تفریق دے سکے ہیں۔

جماعت اسلامی جس اسلامی انقلاب کا نعرہ لگاتی ہے فلاحی اسلامی ریاست کی بات کرتی ہے وہ محض سیاسی اور انتخابی نعرہ نہیں،جو ہم بنانا چاہ رہے ہیںاس ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں اس نعرے اور ریاست کا مطلب ہے کہ یہ بچہ کسی موٹر سائیکل مکینک کی دکان پر بطور ” چھوٹا” بھرتی نہ ہو جائے، یہ گلی اور کوچے میں ” لوہا ویچ، پرانی جتیاں ویچ” کی آوازیں لگانا شروع نہ کر دے ، کسی بھٹے پر اینٹیں لادنے والا نہ بن جائے یا کسی گھر کی مالکن کے آگے ” جی میم جی” کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہو جائے – اسلامی انقلاب ایک انگوری پھولوں کی بیل ہے جو معاشرے کے ایسے ہی ہزارہا لوگوں کے دکھ چھپا لینا چاہتی ہے۔

اسلامی انقلاب کسی جنونی کا نعرہ نہیں کسی بہکاوئے کا سبز باغ نہیں کسی لالچ اور دھوکے کا نام نہیں یہ خوشحالی اور روشن مستقبل کے پانی کی لہریں ہیں جو خطہ پاکستان کے پسے ہوئے لوگوں کونہ صرفسیراب کرنا چاہتی ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر یہ کام بغیر کسی حکومتی اختیار کے کر رہی ہیں بھلے تم نہیں واقف؟ ہم ہی ہیں جنہوں نے یتیموں کو “آغوش” فراہم کی ہے ہم ہی ہیں جو غریبوں کا مداوا کرتے ہیں، باغ اور کشمیر کے پہاڑگواہ ہیں کہ ہم نے زلزلہ کے بعد ان میں زندگی کی امید پیدا کی ، ہم ہی ہیں جنہوں نے سیلاب سے اچھالے ہوۓ لوگوں کو تھاما، ہم ہی ہیں جو غزالی ، آفاق اور بیٹھک سکول سے غریب بچوں کواٹھا کر جی سی اور ایچی سن کالج کے طلبہ کے مد مقابل کھڑا کر رہے ہیں ہم ہی ہیں جو الخدمت کے روپ میں اس قوم کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں، شادی بیاہ یا یتیموں کی سرپرست یا طالب علموں کی کفالت ہم ہی ہیں جو بے سہاروں کا ہاتھ پکڑتے ہیں۔

محدود وسائل کے اندر، محدود اختیارات کے اندر اسلامی انقلاب اپنے اثرات دکھا رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ اس قوم کے دکھوں کا مداوا میرے پاس ہے، اس قوم کے زخموں کا پھاہا میرے پاس ہے اس قوم کی جائے سکوں میرے انگن میں ہے لیکن وائے افسوس یہاں بیمار اپنے مسیحا کو نہیں پہچانتا اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے چلیں کہ سوچوں کو بدل ڈالیں”سب چور ہیں ” کو دماغ سے نکال دیں کیوں کہ اللہ کی زمین کبھی بھی نیک اور صالح لوگوں سے بانجھ نہیں رہی ، ہر دور میں موسیٰ اور فرعون موجود رہے ہیں بس ہماری آنکھیں ہیں کہ دیکھ نہیں پاتی ورنہ مکہ کا وہ عظیم شخص جس پر میرے اور آپ کے ماں باپ قربان، امانت اور سچائی میں پورے عرب میں مشہور و ممتاز، اپنے پیروکاروں کی گنتی ایک دو سے شروع نہ کرتا- آج جماعت اسلامی آپ کو آواز دیتی ہے ان غریب اور لاچار مفلسوں کی خاطر، عدل و انصاف کے لیے عدالتوں میں خاک چھانتے کسان ہاریوں کی خاطر، ہاتھ میں ڈگری کی صورت اک کاغذ پکڑے نوجوان کے روزگار کی خاطر، کاروبار کے بیٹھ جانے پر گرتے آنسوؤں کی خاطر آؤ اک فلاحی جمہوری پاکستان کی طرف کیوں کہ روشن مستقبل ہم ہی ہیں۔

معاشرے انصاف کے ساتھ زندہ رہتے ہیں

معاشرے انصاف کے ساتھ زندہ رہتے ہیں

اس تصویر کی کاٹ کتنی گہری ہے
Graphic1ایک معصوم بچی اپنے والد کی تلاش میں اپنی ماں کے ہمراہ انصاف اور امن کیلئےدربدر ہےلیکن اس کیلئے
انصاف کا کوئی در نہیں کھلتا کسی امن عالم کے ٹھیکیدار کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی۔دنیا کو جنگ وجدل کے حوالے کر دینے والےعالمی امن  کے ٹھیکیدار اور دنیا کو انصاف کا پیغام دینے والے بے انصافی کے پیامبرشایداس بات سے بے خبر ہیں کہ دنیا میں وہی معاشرے زندہ رہتے ہیں جہاں ہر ایک کو بلاتفریق انصاف ملے۔ ناانصافی معاشروں کو تباہی کے گہرے غار میں دھکیل دیتی ہے۔اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر کفر کی حکومت تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن ظلم کی نہیں۔
جب ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم ہو بستیاں اور بازار لہو لہان ہوں ۔ماؤں کو سکول جانے والے بچوں کی خیریت سے واپسی کا یقین نہ ہو۔اور کام پر جانے والے پانچ معصوم بچوں کا باپ شام کو سفید کفن اوڑھے گھر لوٹے۔جہاں انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے خود انصاف کیلئے مارے مارے پھریں وہاں انسان کس سے انصاف کی امید کرے۔
اس معصوم بچی کی تصویر اور اس کی انکھوں میں جلتی بجھتی امید و یاس کی روشنی دیکھ کر مجھے تاریخ کے جھروکوں سے ایک حکمران یاد آرہا ہے۔
عین حالت جنگ میں جب ہر روز سینکڑوں شہ سوار موت کے گھاٹ اتر رہے تھے اور ہر لشکر اپنی فتح کیلئے دوسرے کو تہ تیغ کر دینے کیلئے کمر بستہ تھا۔ایک عیسائی عورت روتی پیٹتی ہوئی سلطان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے کہ جنگ زدہ ماحول اور دھول اڑاتے لشکروں کے درمیان اس کا لخت جگر کہیں کھو گیا ہے۔یہ بات بجا کی فریاد کرنے والی دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی لیکن وہ ایک ماں تھی اور یہ فرزند ہی اس کی کل متاع تھی۔
سبز آنکھوں والے سپہ سالار نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ اردگرد کی تمام آبادیوں کا احاطہ کرلیا جائے اور اس عورت کا بچہ تلاش کر کے لایا جائے۔
اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ایک پہر بھی نہیں گزرا تھا کہ مغرب سے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ آور ہونے والوں میں شامل اس خاتون کا لخت جگر تلاش کر لیا گیا۔
عورت خوشی سے دیوانہ وار آگے بڑھی اور سلطان کے آگے سجدہ ریز ہوگئی۔
نہیں  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلطان کی آواز فضاء میں گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک فرض تھا جو ادا کر دیا گیا۔اب تم اپنے لوگوں میں واپس لوٹ جاؤ۔
وہ عظیم الشان حکمران جسے دنیا  ”سلطان صلاح الدین ایوبیؒ ” کے نام سے جانتی ہے یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ
“معاشرے امن وانصاف میں زندہ رہتے ہیں ،ناانصافی اور بدامنی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے”
ہے کوئی ایسا شخص جو ہمارے حکمرانوں کو یہ بات بتا دے۔

ہاتھوں میں لیے شمشیر۔۔۔ میرے جموں کشمیر

ہاتھوں میں لیے شمشیر۔۔۔ میرے جموں کشمیر


بٹ کے رہے گا ہندستان، لے کے رہیں گے پاکستان کا  نعرہ کچھ اتنا  پرانا بھی نہیں۔ ۶۷ سال پہلے وطن عزیز کو آزاد کرانے کے اس نعرہ کی باز گزشت اب بھی ہر سال ۵ فروری کو سنائی دیتی ہے  جب یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جانے والا  دن جنت نظیر کشمیر کی وادیوں کو بھارت کے ظلم و استبداد سے ممکنہ حد تک نجات دلانے کا عہد کرتا ہے۔

آزادی کشمیر کی تحریک ۱۹۳۰ سے برسرجہادہے۔ ۱۹۴۷ میں برصغیر کے بنیادی اصولوں اور فارمولے کو نظر اندا ز کرتے ہوئے جب بھارتی قیادت  اور  بر طانوی وائسرائے لارڈ ما ؤنٹ بیٹن  نے مہاراجہ کشمیر سے سازبا ز کرکے کشمیر کو بھا رت کا حصہ قرا ردیا تھا اور  ْ تحریک جہاد کے نتیجے میں کشمیر کا ایک تہائی حصہ آزاد کرالیا گیاتھا۔ مجاہدین کشمیر کے قدم تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ  بھارتی حکام نے عیاری کے ساتھ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ذریعے قرارداد منظور کروالی کہ را ئے شماری کے ذریعے کشمیریوں  کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا  اور پھر کشمیر میں مسلمانوں کی عددی اکثریت  کو ختم کرنے کے لیے خصوصا  جموں و کشیر میں بڑے پیما نے پر قتل عام شروع کردیا گیا۔ ۱۹۴۷،  ۱۹۴۸ء میں جموں و کشمیر کے مسلمانوں  نے  ۴  لاکھ افراد کی قربانی پیش کرکے  اس علا قے کو آزاد کرایا جو آزاد جموں و کشمیر کے نام سے  تحریک آزادی کشمیر  کا بیس کیمپ بنا ہواہے۔

کشمیر کے ایک حصے پر  بھا رت کی مستقل بالادستی  اہل کشمیر کی  پوری جدوجہد پر پانی پھرنے اور ان کی قربانیوں کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔ آج کشمیر کاز کے ساتھ کھلی غداری  اور جموں کشمیر کے عوام  کی قربانیوں کا سودا  کیا جارہا ہے  اور کشمیر کے حق خودارادیت  سے دست برداری کے عملی اقدامات  کے ذریعے  کشمیر کی آزادی کے ہدف سے  دست برداری کے مذموم مقاصد پر عمل درآمد کو کوشش جاری ہے۔ جبکہ تاریخ  شاہد ہے کہ بھارت کسی بھی شکل میں حقیقی خود اختیاری دینے کے لیے  تیا ر  ہوا ہے اور نہ ہوگا۔  بھارت کی پاکستا ن سے دشمنی  اور کشمیر سے غداری  ڈھکی چھپی  نہیں رہی ہے  بھارتی  حکومت  کی  طرف سے بے گناہ پاکستانیوں کی گرفتاری  اور مسلسل  لاشوں کا تحفہ  بھارتی ذہن کی عیارانہ عکاسی کررہا ہے۔  بھارتی حکومت نے کشمیری مسلما نوں پر  عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔  ان کا بے دریغ قتل عا م کیا جا رہا ہے  اور پورے کشمیر میں بدترین مرکزی آمریت مسلط  کررکھی ہے، کنٹرول لائن پر بھارت کی خلا ف ورزی ابھی تک جا ری ہے۔ مسلسل ہٹ دھرمی، ضد اور اپنے  موقف پر ڈٹے  رہتے ہوئے بھارت کا  پاکستان سے  مزید رعایات  کا مطالبہ جاری ہے اور اس کو مزید تقویت امریکہ   بھارت گٹھ جوڑ سے مل رہی ہے جوایک جانب تو پاکستا ن کو مزید پسپائی اختیا ر کرنے پر زور دے رہا  ہے اور دوسری جانب  بھارت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے  پر تلا ہوا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے دشمن  بھارت  کے ساتھ  امریکہ کے اچھے تعلقات ہیں۔ امریکہ میں مقیم بھارتی نژاد امریکیوں کی تعداد ۳۰ لاکھ سے زا ئد ہوچکی ہے  اور ان کی سب سے اہم سرگرمی بھا رت و امریکہ کے تعلقا ت کو  مضبوط سے مضبو ط تر کرنا ہے۔  امریکہ کا مفا د اسی  میں ہے کہ کشمیر منقسم رہے  اور کو ئی ایسی صورت نکل آئے  اپنے قدم جمانے  اور فو جو ں کے قیا م کے لیے  کچھ اور علاقہ  حاصل کرنے  اور پو رے علا قے کی  نگرا نی   کے لیے اپنی موجودگی  کے لیے مزید سہولتیں حاصل کرنے کا موقع مل جائے۔

یونائٹیڈ اسٹیٹس آف کشمیر کی امریکی تجویز  دراصل کشمیر فار یونایٹیڈاسٹیٹس آف امریکہ  کا ایک جال ہے۔ امریکی دا نش وروں کی کشمیر  اسٹڈی کا ہدف کشمیر  کے اسلامی تشخص کو بگاڑنا اور وہاں ایک سیکولر نظام کا فروغ، نیز پاکستان کے اسلامی تشخص  کو ختم کرنا  اور پاکستا ن  و بھا رت  کو لسانی، معاشی، تہذیبی  وحدت  کی طرف لے جا  کر  تقسیم ہند  کے تاریخی عمل کو  الٹی سمت موڑ کر، اکھنڈ بھارت کی کوئی شکل کو  وجود میں لانا ہے۔ کشمیر میں اصل  ایشو  انتظامی  ایشو  نہیں  بلکہ  جموں و کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا ہے  جس کے حصول کے لیے  کشمیری عوام ۱۹۸۹ سے لا کھو ں افراد کی قربا نی دے چکے ہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے کہ  پاکستانی قیادت نے  کشمیری عوام کو مایو س کیا ہے  اور کشمیریوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے  اور بھارتی موقف کی حمایت  کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر ، کشمیری عوام کی  قومی آزادی کی تحریک ہے  جس کو سیاسی مقاصد  اور اقتدار کے لیے استعمال کرنا  قابل مذمت ہے۔ حکمران  بھارت کی خوشامد میں مشغول ہیں  جبکہ بھارت پاکستان کو ریگستان بنانے کی سازشوں میں مصروف عمل ہے۔

پاکستان پر کشمیری عوام کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوچکا ہے۔ جموں و کشمیر کے مسلمان  کسی بھی قیمت پر بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے  انہو ں نے  قربا نیوں کے ساتھ جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اسے نظر انداز کرکے  محض مفادپرست عناصر کے بل بوتے پر  بھارتی تسلط کو کسی بھی شکل میں لانے کی کوشش یا تائید  کشمری عوام سے غداری اور غضب الہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگی۔ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے،کشمیر اور پاکستان دو الگ الگ چیز نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا حصہ ہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ حق کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے  کشمیریوں کے حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی جائے  اور کسی بھی کمزوری و بے اعتدالی و پسپائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے  کشمیر کے اصولی موقف پر سختی سے ڈٹے رہنے اور متحرک رہتے ہوئے عالمی ضمیر کو بیدار کیا جائے۔ سچی و اسلا می تعلیما ت کی پابندی اور اپنے حقیقی و اصل دشمن کے خلاف جہاد ایمان کا لا زمی جزو اور قوموں کی زندگی میں بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو حق کی را ہ میں جدوجہد کرتے ہیں رب کی تائیدونصرت بھی انہی کو حاصل ہوتی ہے۔

فراعنہ کی سرزمین ہمیشہ خوں بہ جام ہے

فراعنہ کی سرزمین ہمیشہ خوں بہ جام ہے

فراعین مصر کی شقی القلبی کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ کہیں پڑھا تھا کہ جنگ یوم کپور کے موقع پر انور سادات نے شاید قوم سے خطاب کے دوران جوش خطابت میں یہ نعرہ لگایا تھا کہ ہم فراعین مصر کے جانشیوں کو آل موسیٰ سے مقابلہ درپیش ہے” اور پھر وہی ہوا جو فرعونوں اور انکے حواریوں کا مقدر رہا ہے۔ ذلت آمیز شکست۔
1949ء میں امام حسن البنّا کی شہادت سے سید قطب کی شہادت تک اور زیب الغزالی سے مہدی عاکف تک انہی فرعونوں کی طرف سے مسلط کردہ قید و بند کی صعوبتیں بھی فرعونوں کے اقتدار کے تسلسل کو قائم نہ رکھ پائے اور بالآخر 2011ء میں حُسنی مبارک سے نجاب کے بعد حسن البنّا کی اخوان المسلمون اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی۔ حُسنی مبارک کی باقیات فراعین مصر کے جانشیوں کو اسلام پسندوں کا اقتدار ایک سال سے زیادہ گوارہ نہ ہوسکا۔ اخوان کے خلاف فوج، سکیولر انتہاپسندوں کا ایکا ہی نہیں تھا بلکہ سلفی النور پارٹی بھی اخوان کی پشت پر خنجر گھونپنے سے باز نہی آئی۔
آج جبکہ اسلام پسند مصر کے طول و عرض میں ایک بار پھر انہی فرعونوں سے بیزاری کا اعلان کررہے ہیں، فراعین مصر کی شقی القلبی اپنے عروج پر ہے۔ 8 جولائی کی صبح نماز فجر کے دوران مصری فوج کی جانب سے نہتے پُرامن مظاہرین ہر کیے گئے حملے میں تقریبا 51 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ مظاہرین ریپبلکن گارڈز آفیسرز کلب کے باہر احتجاج کررہے تھے جہاں غالب گمان ہے کہ مصر کے پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مُرسی کو نظربند رکھا گیا ہے۔
مجزرة الحرس الجمهوري‬ (ریپبلکن گارڈز قتلِ عام) کی تصاویر
republican-guards-headquarters-massacre-01republican-guards-headquarters-massacre-02republican-guards-headquarters-massacre-03republican-guards-headquarters-massacre-04republican-guards-headquarters-massacre-05republican-guards-headquarters-massacre-06
پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں۔۔۔
پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں۔۔۔
ان اکیاون شہدا میں اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ “فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی” کے ترجمان اخبار “الحریۃ و العدالۃ” کے فوٹوگرافر 26 سالہ احمد سمیر عصّم بھی شامل ہیں۔ انہیں سر میں گولی مار کر شہید کیا گیا۔ اپنی شہادت سے کچھ ہی پل پہلے سمیر ایک عمارت کی چھت پر تعیّنات فوجی کی نہتّے مظاہرین پر کی جانے والی فائرنگ کو فلم بند کررہے تھے۔ اسی دوران فوجی اچانک انکی طرف گھوما اور انہیں گولی مار دی۔
احمد سمیر عصّم
احمد سمیر عصّم
00:00
00:00
احمد سمیر کی اپنی شہادت سے قبل بنائی گئی ویڈیو کے آخری تیس سیکنڈ۔۔۔

قاتل فوجی احمد سمیر کو نشانہ بناتے ہوئے۔
ویڈ کلپ سے حاصل کی گئی عین اس وقت کی تصویر جب قاتل فوجی احمد سمیر کو نشانہ بنا رہا تھا۔
احمد سمیر کی اپنی زندگی کے آخری لمحات تک بنائی گئی بیس منٹ کی ویڈیو میں عبادت میں مصروف نمازیوں پر پیچھے سے کی جانے والی فائرنگ اور پھر خود انکی شہادت کے مناظر اس بات کی دلیل ہے کہ اقتدار پر چور دروازے سے قابض ہوجانے والے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ سرزمین مصر آج پھر اپنے سپوتوں کے لہو سے گُل رنگ ہے۔ لیکن کامیابی تو حق کا ہی مقدر ہے کہ ” دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو(القرآن)”۔ پچاس سال پہلے سید قطب کی شہادت پر نعیم صدیقی نے جو نظم کہی تھی وہ آج بھی حسبِ حال ہے۔
ہر ایک دور وقت کا خود اپنا اک یزید ہے
ہرایک دور کا حسین بیگناہ شہید ہے
جدہر جدہر گرا ہے خوں، یہی رہِ امید ہے
پھر ایک کارواں لُٹا
صلیب جبر گڑگئی، وہ چوب دار آگئے
صداقتِ حسیں! ترے، وہ جاں نثار آگئے
بہت سے لا اِلہ خواں، کناردار آگئے
پھر ایک کارواں لُٹا
فراعنہ کی سرزمیں، ہمیشہ خوں بہ جام ہے
ہمیشہ خوں بہ جام ہے، وہ پھربھی تشنہ کام ہے
یہ اک جہانِ بے سکوں! جسے سکوں حرام ہے
پھر ایک کارواں لُٹا
یہ انقلاب دیو ہے، لہو کی بھینٹ مانگتا
یہ خود ہی مدعی بھی ہے، یہ خود ہی صاحب قضا
یہ قافلے کاراہزن! یہ قافلے کارہنما
پھر ایک کارواں لُٹا
کئی صدی کےدشت میں! یہ راستی کا کارواں
ادب کا فن کا، علم کا، یہ زندگی کا کارواں
رہِ خودی کے راہرو! رہِ نبی کا کارواں
پھر ایک کارواں لُٹا
ابھی توایسے کارواں کئی ہزار آئیں گے
اٹھیں گے چہار سمت سے وہ بار بار آئیں گے
وہ بن کے ابرِ خوں فشان، بہ ریگ زارآئیں گے
پھر ایک کارواں لُٹا
بچو بچو کہ یک بیک، دمِ حساب آئے گا
جو راج ظلم کیش ہے وہ راج ڈول جائےگا
گرے کا تاج فرق سے، یہ تخت ڈگمگائے گا
پھر ایک کارواں لُٹا