Sunday 30 June 2013
Saturday 15 June 2013
جناح کا پاکستان تو جل ہی رہا تھا اب میرے جناح کا گھر بھی جلا ڈالا
جناح کا پاکستان تو جل ہی رہا تھا اب میرے جناح کا گھر بھی جلا ڈالا........
پاکستان تباہی کا شکار ہو رہا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ قانون نافذ
کرنے والے اداروں کی لاپرواہی ہے۔
میرے ماموں ' اللہ جنت نصیب کرے ایک بات کہتے تھے، کہتے تھے اس ملک پر
سرمایہ دار' جاگیردار' چوہدری' وڈیرے راج کرتے ہیں، جبکہ قانون عام آدمی کے
لیے رہ گیا ہے۔
اگر کوئ امیر بندہ ہے تو وہ توپ لے کر بھی پولیس کے
ناکے سے نکل جائے گا، مگر ایک غریب بندے کی جیب سے "ناخن تراش" بھی نکل آئے
تو اس پر مہلک ہتھیار رکھنے کا الزام لگ جائے گا۔
ہمارے قائد، محمد
علی جناح کی زیارت کی رہائش گاہ کو تخریب کار عناصر نے نشانہ بنایا ہے۔ ہم
کو تخریب کاروں سے کوئ گلہ نہیں ہے، تخریب کار اپنے فرائض پوری ایمانداری
سے پورے کررہے ہیں، ہمیں گلہ ہے اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ،
پولیس سے........ پتا نہیں کیا کیا دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ اے قائد ہم تم
سے ،شرمندہ ہیں ۔۔۔
Tuesday 11 June 2013
عقیدے کی اہمیت
عقیدے کی اہمیت
عقیدے کی اہمیت
یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سقوطِ بغداد ہے، سقوطِ غرناطہ ہے، سقوطِ ڈھاکا ہے، یورپی طاقتوں کا دو سو سالہ عہدِ غلامی ہے، امریکا اور یورپ کی بالادستی ہے، فلسطین اور کشمیر جیسے سیاسی مسائل ہیں، نااہل، بدعنوان اور مغرب کے آلہ کار حکمران ہیں، علم سے لاتعلقی ہے، بدترین غربت ہے، فرقوں اور مسلکوں کی آویزش ہے
لیکن اس کے باوجود !
مسلمان زندہ ہیں اور ایک شاندار مستقبل کی تخلیق کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے، اور وہ یہ کہ ان کے عقائد محفوظ ہیں اور ان پر مسلمانوں کا ایمان ہے، اگرچہ مسلمان عمل میں کمزور ہیں۔ شاہنواز فاروقی
بھارتی اشتعال انگیزی
بھارتی اشتعال انگیزی
بھارتی اشتعال انگیزی عروج پر،جنگی طیارےپاکستانی حدودمیں گھس گئے
اوکاڑہ : بھارتی فضائیہ کے دو جنگی طیاروں نے منگل کے روز پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ کلو میٹر تک پاکستانی علاقے میں گھس آئے۔ پاکستان سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق بھارتی جنگی طیارے دو منٹ تک پاکستانی حدود میں محو پرواز رہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق دونوں بھارتی طیارے ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔ بھارتی جنگی طیاروں سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو منٹ تک پاکستان کی سرحد کے اندر موجود رہے۔
ذرائع کے مطابق منگل کی صبح 10 بج کر 41 منٹ پر ہیڈ سلمانیکی کے مقام پر دو بھارتی فائٹر طیارے پاکستانی کی حدود میں داخل ہوگئے، یہ طیارے تقریبا 2 منٹ تک پاکستان کی 5 سے 7 میل تک حدود میں رہے، پاکستانی ایئر کنٹرول نے جب بھارتی طیاروں سے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا اور وہ واپس بھارت روانہ ہوگئے۔
اوکاڑہ : بھارتی فضائیہ کے دو جنگی طیاروں نے منگل کے روز پاکستان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ کلو میٹر تک پاکستانی علاقے میں گھس آئے۔ پاکستان سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق بھارتی جنگی طیارے دو منٹ تک پاکستانی حدود میں محو پرواز رہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق دونوں بھارتی طیارے ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر پاکستانی حدود میں داخل ہوئے۔ بھارتی جنگی طیاروں سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دو منٹ تک پاکستان کی سرحد کے اندر موجود رہے۔
ذرائع کے مطابق منگل کی صبح 10 بج کر 41 منٹ پر ہیڈ سلمانیکی کے مقام پر دو بھارتی فائٹر طیارے پاکستانی کی حدود میں داخل ہوگئے، یہ طیارے تقریبا 2 منٹ تک پاکستان کی 5 سے 7 میل تک حدود میں رہے، پاکستانی ایئر کنٹرول نے جب بھارتی طیاروں سے رابطہ کیا تو ان کی طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا اور وہ واپس بھارت روانہ ہوگئے۔
مولانا محمد علی جوہراور آج کا لیڈر
مولانا محمد علی جوہراور آج کا لیڈر
عدالت کے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مقدمے کا فیصلہ سننے والے چند سیاسی قیدی عدالت میں موجود تھے۔ سیاسی قیدی بلا وجہ پکڑے گئے تھے۔ سب لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک شور بلند ہوا اور انگریز جج کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ سب لوگ جج کو تعظیم دینے کے لیے کھڑے ہو گئے مگر ایک بارعب و پروقار شخص اپنی کرسی پر بیٹھا رہا۔ وہ انگریز جج کی تعظیم میں کھڑا نہ ہوا۔
یہ دیکھ کر انگریز جج سر سے پاؤں تک غصے سے کانپ گیا اور کڑک کر بولا۔ “اس سے کرسی چھین لی جائے۔“ اس سے پہلے کہ کوئی سیاسی قیدی سے کرسی چھینتا، وہ خود اٹھا، اس نے کرسی اٹھا کر دور پھینک دی اور زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور انگریز جج سے بولا،
“کرسی چھیننے والے ظالم! کیا اللہ کی زمین بھی چھین لو گے؟“
یہ سن کر انگریز جج سناٹے میں آ گیا۔
یہ تھے ہمارے مولانا محمد علی جوہر........
بچے …شاہنواز فاروقی…
بچے
…شاہنواز فاروقی…
رئیس فروغ کا ایک شعر ہے
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
رئیس فروغ کے اس شعر میں مرنے کا مطلب ہے دنیا سے رخصت ہوجانا۔ لیکن مرنے کا ایک اور مفہوم بھی ہے: بڑا ہوجانا۔ بڑا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن عام طور پر عمر بڑھنے کے ساتھ لوگوں کا صرف جسم بڑھتا ہے، ان کے علم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا، ان کے فہم میں کوئی ترقی نہیں ہوتی، ان کے شعور میں بالیدگی پیدا نہیں ہوتی، ان کی نظر وسعت سے ہمکنار نہیں ہوپاتی۔ البتہ جسم کے ساتھ کئی اور چیزوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ جھوٹ میں کمال پیدا کرلیتے ہیں، دھوکا دینے میں ماہر ہو جاتے ہیں، ان میں حسد کا صحرا آباد ہوجاتا ہے، نفرت کا تالاب سمندر بن جاتا ہے، غیبت گوئی پہاڑ بن جاتی ہے۔ انسانوں کی بڑی تعداد اس صورت حال سے یہ مراد لیتی ہے کہ وہ اب پختہ کار ہوگئی ہے، سمجھ دار بن گئی ہے، صاحب ِنظر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ منظرنامہ بتاتا ہے کہ انسان بڑا نہیں ہوا بلکہ اس کی باطنی موت واقع ہوگئی ہے اور اس کا بچپن گم ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ بچپن جس کے ہونے سے انسان، انسان تھا۔ جس کی موجودگی زندگی کی علامت تھی۔ جس کا ہونا اس معصومیت کا استعارہ تھا جو انسان کو اشرف المخلوقات کہلواتا ہے۔
مذہب کو دیکھنے کے کئی زاویے ہیں۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ مذہب انسان کو بندہ بناتا ہے اور اسے اس کے خالق، مالک اور رازق سے جوڑ دیتا ہے۔ مذہب کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ مذہب انسان کو اپنے جیسے انسانوں سے محبت کرنا، ان کے لیے قربانی دینا اور ایثار کرنا سکھاتا ہے۔ مذہب کو دیکھنے کا ایک تناظر یہ ہے کہ مذہب ’’بڑوں‘‘ کو ایک بار پھر ’’بچہ‘‘ بناتا ہے۔ انہیں ان کے ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک کرتا ہے۔ انہیں ان کی کھوئی ہوئی معصومیت لوٹاتا ہے۔ ہماری دنیا کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں بچے ’’کمیاب‘‘ ہوگئے ہیں اور بڑوں کی ’’فراوانی‘‘ ہوگئی ہے۔ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی معصوم ہوتے ہیں۔ نبی کی معصومیت کے تین پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نبی کی زبان پر حق جاری کردیتے ہیں۔ نبی کی معصومیت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نبی کا نفس تزکیے کی بلند ترین سطح کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن نبی کی معصومیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نبی کا بچپن کبھی زائل نہیں ہوتا۔ بچپن میں حضرت موسیٰؑ کے بارے میں جب فرعون کو شبہ ہوا کہ یہ بنی اسرائیل کا وہی بچہ ہے جس سے مجھے خطرہ لاحق ہے تو اس نے حضرت موسیٰؑ کا امتحان لیا۔ اس نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے انگارا اور ہیرا رکھا اور کہا کہ اگر یہ خاص بچہ ہے تو یہ انگارے کے بجائے ہیرا اٹھائے گا، مگر حضرت موسیٰؑ نے ہیرے کے بجائے انگارا اٹھا لیا۔ اس واقعہ کی ایک تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کے ذریعے حضرت موسیٰؑ کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ لیکن اس واقعہ کی ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰؑ نبی ہونے کے باوجود بچے ہی تھے اور ان کا عمل بچے کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ انگارا ہیرے سے زیادہ متوجہ کرنے والا تھا چنانچہ حضرت موسیٰؑ اسی کی طرف راغب ہوئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیلؑ کو پورے افق پر چھائے ہوئے دیکھا اور خوف محسوس کیا، اور گھر تشریف لاکر حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ مجھے چادر اوڑھا دو۔ اس موقع پر حضرت خدیجہؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح تالیف ِقلب کی جس طرح کوئی بڑا بچے کی تالیف ِقلب کرتا ہے۔ ایک بہت کمتر درجے پر صوفی کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے۔ اگر صوفی کے بارے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ صوفی ایک اعتبار سے ایک بڑا سا بچہ ہوتا ہے۔
بچوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مجسم طلب ہوتے ہیں، وہ غبارہ مانگتے ہیں تو اس طرح جیسے غبارہ نہ مانگ رہے ہوں پوری کائنات مانگ رہے ہوں۔ بڑوں کا مسئلہ اس کے برعکس یہ ہوتا ہے کہ وہ کائنات بھی اتنی بے دلی سے مانگتے ہیں جیسے غبارہ طلب کررہے ہوں۔ بچوں کی طلب میں ان کا دل، ان کا ذہن، ان کی روح، ان کا جذبہ، ان کا احساس غرضیکہ ان کا پورا وجود شریک ہوجاتا ہے۔ لوگ اکثر اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ بچے اپنی ہر خواہش پوری کرالیتے ہیں، لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سراپا تمنا بن جاتے ہیں، اور ان کے سراپا تمنا بن جانے سے ان کی طلب میں غیر معمولی اثر پیدا ہوجاتا ہے۔ بڑے کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں تو مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا دل اس چیز کی طرف مائل ہوتا ہے مگر ان کا ذہن ان کی طلب میں شریک نہیں ہوتا۔ بچوں کی عرضِ تمنا سے بڑے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ دعا کس طرح مانگی جاتی ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ مانگنے والا کتنے خلوص، کتنی گہرائی، کتنی شدت اور کتنے تواتر کے ساتھ کوئی شے مانگ رہا ہے۔ اکثر بڑوں کی بیشتر دعائیں اس طرح ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ دے دے تو ٹھیک، نہ دے تو بھی ٹھیک۔ لیکن بچے اپنی طلب کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنادیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ غبارہ مل گیا تو پوری کائنات مل گئی اور غبارہ نہ ملا تو گویا پوری کائنات ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بچوں کے لیے ان کی طلب کسی قیمت سے نہیں، ان کے دل کے تقاضے سے متعلق ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک غبارہ بھی ان کی تمنا کی شدت سے کھربوں روپے کی چیز نظر آنے لگتا ہے۔
بچوں اور بڑوں کا ایک فرق یہ ہے کہ بچے کھیل کو زندگی بنا دیتے ہیں اور بڑے زندگی کو بھی کھیل میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اکثر بڑے اس بات پر ناراض ہوتے ہیں کہ بچے کھیلتے بہت ہیں، یہاں تک کہ وہ صبح سے شام تک بھی کھیلتے رہیں تو تھکتے نہیں۔ مگر لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بچے کھیل کو زندگی بنانے اور تھکن سے دور رہنے میں اس لیے کامیاب رہتے ہیں کہ وہ کھیل جیسی چیز میں بھی معنی پیدا کرلیتے ہیں۔ انسان کی ساخت ایسی ہے کہ وہ جس چیز میں معنی پیدا کرلیتا ہے اس سے نہ کبھی اکتاتا ہے نہ کبھی تھکتا ہے۔ بڑے بظاہر بہت بامعنی کام سے بھی اس لیے تھک جاتے ہیں کہ ان کے لیے اس کام میں کوئی معنی باتی نہیں رہتے۔ بچوں کے کھیل سے نہ تھکنے کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ کھیل جذبے کے ساتھ کھیلتے ہیں، اور بڑے اکثر کام جذبے کے بجائے عقل کے زیراثر کرتے ہیں۔ بچے کھیل میں اس لیے بھی دلچسپی لیتے ہیں اور اس سے اس لیے نہیں تھکتے کہ وہ کھیل لطف اندوز ہونے یا Enjoy کرنے کے لیے کھیلتے ہیں، اور بڑے زندگی سے بھی اس لیے تھک جاتے ہیں کہ وہ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت کھو دیتے ہیں یا اس اہلیت میں ہولناک حد تک کمی واقعی ہوجاتی ہے۔
انسان کی سب سے بڑی متاع اور قوت محبت کرنے کی صلاحیت ہے، اور انسان اُس وقت تک سچی محبت نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ معاف کرنے کی اہلیت کا حامل نہ ہو… اور حقیقی معافی وہ ہے جو انسانی تعلق کو وہیں سے استوار کرے جہاں سے اس میںرخنہ پڑا تھا۔ اکثر بڑوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ معاف کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں اور وہ معاف بھی کرتے ہیں تو تعلق میں ایک کمی بہرحال در آتی ہے۔ بچوں کا کمال یہ ہے کہ وہ دل سے معاف کرنے والے ہوتے ہیں، اور وہ جھگڑے کے بعد تعلق کو اسی سطح پر دوبارہ بحال کرلیتے ہیں جس سطح پر وہ جھگڑے سے پہلے تھا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی لڑائی بڑوں کو باہم متصادم کردیتی ہے۔ بڑے لڑ پڑتے ہیں لیکن بچے ایک لمحے میں لڑائی بھول کر ایک ساتھ کھیلنے لگتے ہیں۔ بچوں کی یہ محبت اور معاف کرنے کی اہلیت ان کی شخصیت کے انا مرکز یا Ego Centric نہ ہونے سے برآمد ہوتی ہے۔
ہماری چھوٹی بیٹی نے ایک دن ہم سے کہا کہ آپ نے ہمیں بچپن میں انبیاء کے قصے سنائے۔ ان قصوں میں طرح طرح کے معجزے تھے اور معجزے محیرالعقول ہوتے ہیں، مگر ہم نے کبھی آپ سے یہ نہیں پوچھا کہ ایسا کیونکر ہوا۔ آپ نے ہمیں جو بتادیا ہم نے اس پر سو فیصد یقین کر لیا۔ اکثر بچوں میں یقین کی یہ صلاحیت ہوتی ہے اور ان کا یقین ان کی تفہیم کی صلاحیت کو بہت بڑھا دیتا ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے بچوں میں یقین کی اہلیت کمزور پڑی ہے، مگر اس کے ذمے دار بچے نہیں بڑے ہیں۔ بڑوں نے بچوں کے مجموعی ماحول میں تذبذب، بے یقینی اور شک کو داخل کردیا ہے۔ چنانچہ پروین شاکر نے کہا ہے ؎
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
بہت سے لوگ ’’چالاک‘‘ اور ’’ذہین‘‘ کو ہم معنی سمجھتے ہیں، مگر چالاکی ذہن کی نارسائی اور ذہانت ذہن کی رسائی کا نام ہے۔ جو جتنا بچہ ہے وہ اتنا ذہین ہے، اور جو جتنا بڑا ہے اتنا چالاک ہے۔
Friday 7 June 2013
محمّد یوسف کی کہانیانہی کی زبانی
’’ہماری رہائش ریلوے کالونی گڑھی شاہو لاہور میں تھی ۔یہاں میرے ہم مذہبوں کے بھی گھرتھے لیکن زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ اتفاق کی بات کہیے کہ میرا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا اور کھیلنا کودنا بھی مسلمان لڑکوں کے ساتھ ہی تھا ۔سچی بات یہ ہے کہ وہ بھی مجھے اپنے جیسے ہی لگتے تھے ۔مسلمانوں کے ہاں مجھے کوئی ایسی خاص خوبی یا امتیازی بات نظر نہیں آتی تھی کہ میرے دل میں مسلمان ہونے کا شوق پیدا ہوتا ،مسلمان لڑکوں کے مشغلے بھی میرے جیسے ہی تھے۔ ایف سی کالج میں پڑھائی کے دوران میری دوستی ایک ہم جماعت لڑکے جاوید انور سے قائم ہوئی وہ کرکٹ کے سپرسٹار اور ہمارے سینئر ساتھی سعید انور کا چھوٹا بھائی ہے۔ میں نے زندگی بھر اس جیسا لڑکا نہیں دیکھا ۔میں اسے ملنے سعید بھائی کے گھر جاتارہتا تھا ۔سعید بھائی تو 1989ء سے قومی ٹیم میں تھے ،میں کوئی نوسال بعد 1998ء میں ٹیم میں آیا ۔وہاں اکثر ایک سابق کرکٹر ذوالقرنین حیدر آجاتے تھے جو تبلیغی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ نیکی اور نماز روزے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت سعید بھائی کو ایسی باتوں کی لگن نہ تھی ۔اکثر جب ذوالقرنین حیدر یا تبلیغ والے دوسرے لوگ آتے تو سعید بھائی مجھے باہر بھیج دیتے کہ کہہ آئو کہ سعید گھر پر نہیں ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ ان کی طبیعت مذہب کی طرف آنے لگی ۔تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے بھی ان کا میل جول بڑھ گیا۔ اپنی بیٹی کی وفات کے بعد وہ مکمل طورپر مذہبی رنگ میں رنگ گئے۔ اکثر تبلیغی دوروں پر رہنے لگے ۔وہ مجھے کہتے تھے ’’یوسف ہرروز سونے سے پہلے یہ دعا مانگا کرو۔‘‘ اے خدا!مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا… سعید بھائی نے مجھے ان دنوں کبھی یہ نہ کہا کہ مسلمان ہوجائو ہمیشہ اس دعا کی تلقین کرتے رہے۔ میں سعید بھائی کی نصیحت کے مطابق ہمیشہ سونے سے پہلے یہ دعا مانگتا رہا ۔میں نے سعید بھائی میں آنے والی تبدیلیوں کو بڑے غور سے دیکھا اور بہت متاثر ہوا ،
پھر ایک عجیب بات ہوئی ۔میرا ایک دوست ہے وقار احمد، بڑی پرانی دوستی ہے ہماری ، یہ تین سال پہلے کی بات ہے میں حسب معمول رات کو یہ دعا مانگ کر سوگیا کہ ’’اے خدا مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا‘‘ رات میں نے خواب میں اپنے دوست وقار کو دیکھا وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو‘‘ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔آنکھ کھلنے پر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی اللہ نے مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھادیا ہے۔ وقار شیخوپورہ کا رہنے والا ہے۔ اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں پی آئی اے اور نیشنل بینک کے درمیان میچ کیلئے شیخوپورہ کرکٹ گرائونڈ تجویز ہوا۔ میں پی آئی اے کی طرف سے کھیل رہا تھا ۔شیخوپورہ پہنچا تو میرا وہی دوست وقار احمد مجھ سے ملنے آگیا۔ وہی خواب والی وضع قطع ، میں اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے بالکل اسی انداز سے مجھ سے پوچھا ’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو؟‘‘میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے مجھے اشارہ دے دیا ہے کہ حق کا راستہ کیا ہے ۔
شام کو میں شیخوپورہ سے لاہور آیا تو سیدھا کیولری گرائونڈ سعید بھائی کے پاس چلا گیا یہ اکتوبر 2002ء کا ذکر ہے ۔میں نے سعید بھائی سے کہا ’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں‘‘ سعید بھائی نے مجھے گلے سے لگالیا مجھے کلمہ پڑھایا اور میری دنیا بدل گئی۔ اس دوران میں جب بھی رائے ونڈ جاتا اور حاجی عبدالوہاب صاحب سے پوچھتا کہ اب مجھے اسلام قبول کرلینے کا اعلان کردینا چاہئے تو وہ کہتے ’’نہیں ابھی نہیں‘ شاید انہیں میری شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی میں اس لائق نہیں ہوا ۔میری مولوی فہیم صاحب اور طارق جمیل صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انضمام بھائی کو پتہ چلا تو انہوں نے بڑی شفقت کی ۔ جون 2005ء میں کرکٹ ٹیم کچھ میچ کھیلنے سعودی عرب گئی ۔میچ تو نہ ہوئے البتہ ٹیم نے عمرہ کیا ۔اس سے کوئی ڈیڑھ دومہینہ پہلے میری بیوی بھی اسلام قبول کرچکی تھی میں نے اسے آزادی دی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ پوری ٹیم نے عمرہ کیا لیکن میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوا کیونکہ ابھی تک میں نے مسلمان ہونے کا کھلا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مجھے سخت بے تابی تھی کہ عمرے کی سعادت حاصل کروں ۔ میری بیوی بھی میرے ہمراہ تھی ۔ اب وہ تانیہ کی بجائے فاطمہ ہوچکی تھی۔رائے ونڈ سے مولوی فہیم صاحب نے مکہ میں موجود عالمگیر صاحب کے ذمہ لگایا اور وہ رات گئے ہم دونوں کو حرم شریف لے گئے ہم نے عمرہ ادا کیا ، یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا۔ رات کے پچھلے پہر شروع ہونے والا عمرہ صبح پانچ بجے ختم ہوا۔ میں نے اسی وقت مولوی فہیم صاحب کو فون کیا انہوں نے حاجی عبدالوہاب صاحب سے ذکر کیا جنہوں نے مجھے قبول اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان واپس آتے ہی میں نے اعلان کردیا ۔اسے اتفاق یا قدرت کا انعام کہیے کہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام بھی مسلمانوں والے رکھے تھے۔ بیٹی کا نام انیقہ یوسف اور بیٹے کا نام دانیال یوسف ہے ۔میرے قبول اسلام پر والد صاحب نے برہمی کا اظہار نہیں کیا والدہ کچھ رنجیدہ ہوئیں لیکن اب سب کچھ معمول پر آرہا ہے میں اللہ سے دعا گورہتا ہوں کہ وہ میرے پورے خاندان کو حق اور سچ کا راستہ دکھادے۔ آمین۔ ‘‘
.
.
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں
پھر ایک عجیب بات ہوئی ۔میرا ایک دوست ہے وقار احمد، بڑی پرانی دوستی ہے ہماری ، یہ تین سال پہلے کی بات ہے میں حسب معمول رات کو یہ دعا مانگ کر سوگیا کہ ’’اے خدا مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھا‘‘ رات میں نے خواب میں اپنے دوست وقار کو دیکھا وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا اور کہنے لگا’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو‘‘ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔آنکھ کھلنے پر میں یہ سوچتا رہا کہ کیا واقعی اللہ نے مجھے حق اور سچ کا راستہ دکھادیا ہے۔ وقار شیخوپورہ کا رہنے والا ہے۔ اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں پی آئی اے اور نیشنل بینک کے درمیان میچ کیلئے شیخوپورہ کرکٹ گرائونڈ تجویز ہوا۔ میں پی آئی اے کی طرف سے کھیل رہا تھا ۔شیخوپورہ پہنچا تو میرا وہی دوست وقار احمد مجھ سے ملنے آگیا۔ وہی خواب والی وضع قطع ، میں اس وقت حیران رہ گیا جب اس نے بالکل اسی انداز سے مجھ سے پوچھا ’’سنا ہے تم مسلمان ہوگئے ہو؟‘‘میں اس کا منہ دیکھنے لگا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے مجھے اشارہ دے دیا ہے کہ حق کا راستہ کیا ہے ۔
شام کو میں شیخوپورہ سے لاہور آیا تو سیدھا کیولری گرائونڈ سعید بھائی کے پاس چلا گیا یہ اکتوبر 2002ء کا ذکر ہے ۔میں نے سعید بھائی سے کہا ’’میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں‘‘ سعید بھائی نے مجھے گلے سے لگالیا مجھے کلمہ پڑھایا اور میری دنیا بدل گئی۔ اس دوران میں جب بھی رائے ونڈ جاتا اور حاجی عبدالوہاب صاحب سے پوچھتا کہ اب مجھے اسلام قبول کرلینے کا اعلان کردینا چاہئے تو وہ کہتے ’’نہیں ابھی نہیں‘ شاید انہیں میری شکل دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی میں اس لائق نہیں ہوا ۔میری مولوی فہیم صاحب اور طارق جمیل صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انضمام بھائی کو پتہ چلا تو انہوں نے بڑی شفقت کی ۔ جون 2005ء میں کرکٹ ٹیم کچھ میچ کھیلنے سعودی عرب گئی ۔میچ تو نہ ہوئے البتہ ٹیم نے عمرہ کیا ۔اس سے کوئی ڈیڑھ دومہینہ پہلے میری بیوی بھی اسلام قبول کرچکی تھی میں نے اسے آزادی دی تھی کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ پوری ٹیم نے عمرہ کیا لیکن میں ان کے ساتھ شامل نہ ہوا کیونکہ ابھی تک میں نے مسلمان ہونے کا کھلا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مجھے سخت بے تابی تھی کہ عمرے کی سعادت حاصل کروں ۔ میری بیوی بھی میرے ہمراہ تھی ۔ اب وہ تانیہ کی بجائے فاطمہ ہوچکی تھی۔رائے ونڈ سے مولوی فہیم صاحب نے مکہ میں موجود عالمگیر صاحب کے ذمہ لگایا اور وہ رات گئے ہم دونوں کو حرم شریف لے گئے ہم نے عمرہ ادا کیا ، یہ اللہ کا بہت بڑا کرم تھا۔ رات کے پچھلے پہر شروع ہونے والا عمرہ صبح پانچ بجے ختم ہوا۔ میں نے اسی وقت مولوی فہیم صاحب کو فون کیا انہوں نے حاجی عبدالوہاب صاحب سے ذکر کیا جنہوں نے مجھے قبول اسلام کا اعلان کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستان واپس آتے ہی میں نے اعلان کردیا ۔اسے اتفاق یا قدرت کا انعام کہیے کہ میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے نام بھی مسلمانوں والے رکھے تھے۔ بیٹی کا نام انیقہ یوسف اور بیٹے کا نام دانیال یوسف ہے ۔میرے قبول اسلام پر والد صاحب نے برہمی کا اظہار نہیں کیا والدہ کچھ رنجیدہ ہوئیں لیکن اب سب کچھ معمول پر آرہا ہے میں اللہ سے دعا گورہتا ہوں کہ وہ میرے پورے خاندان کو حق اور سچ کا راستہ دکھادے۔ آمین۔ ‘‘
.
.
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں
Subscribe to:
Posts (Atom)