Wednesday 29 May 2013

انفرادی تربیت کی اہمیت



انفرادی تربیت کی اہمیت 

میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انفرادی تربیت ہی عالمی امن کی پرورش کر سکتی ہے ۔ میرے دوست احباب اکثر مجھ سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ مجھے ان کا بے حد احترام ہے۔ آج مجھ سے میرے بدیسی دوستوں نے بھی میرے دیس کے امن پر بہت ساے سوال کئے اور انہیں بھی میں نے یہی کہا کہ ہم زمیداری سے بھاگنے والے لوگ ہیں ۔ ہم لوگ اپنی بندوق چلانے کے لئے دوسروں کے کندھے استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اخلاق کا درس سب کو دیں اوراس کے زاتی اخلاق پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھائے ۔۔

آیئے آج میں آپ کو چینی ادیب “لین ، یو، تانگ کی کتاب سے ایک اقتباس سناتا ہوں جسے مھترم مختار صدیقی نے ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب “ جینے کی اہمیت “ 1956 میں شائع ہوئی تھی ۔ اور مجھے یہ نایاب کتاب اپنے ابا جی ( سسر مرحوم ) کی لائیبریری سے ورثے میں منتقل ہوئی ہے کہ میں ان کی ادب دوستی کی وارث ہوں ۔

دوستو اس موضوع میں وہی لکھا ہے جو میری آئیڈلوجی ہے ۔۔ یوں لگ رہا ہے جیسے ادیب نے میری سوچیں پڑھ لی ہوں ۔۔۔

قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے ، تو یہ کہتے سب سے پہلے ہمیں خود اپنی قومی زندگی کی تنظیم کرتے ۔

قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے گھریلو زندگی کو باقائدہ بناتے ۔

جو لوگ گھریلو زندگی کو منظم بنانا چاہتے وہ سب سے پہلے زاتی زندگی کی تربیت پر توجہ دیتے ۔ اور جو لوگ زاتی زندگی ککی تربہت و تہذیب پر توجہ دیتے ہیں ، وہ سب سے پہلے دلوں کو پاک صاف کرتے ۔۔۔

دلوں کو پاک صاف کرنے کی خواہش کرنے والے سب سے پہلے نیتوں کو مظبوط بناتے ۔ نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے ۔۔۔

دوستو !
سمجھ ، اشیاء کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے ۔ جب اشیاء کا علم حاصل ہو جائے تو تب سمجھ پیدا ہوتی ہے ، اورسمجھ پیدا ہو جائے تو تو نیت اور ارادہ مخلص ہو جاتا ہے ۔ اور جب نیت صاف اور ارادی مخلص ہو جائے تو دل صاف ہو جاتا ہے۔ جب دل صاف ہو جائے تو زاتی زندگی کی تہذیب اور تربیت پوری ہو جاتی ہے۔ زاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب ہو جائے تو گھریلو زندگی منظم اور باقائدہ ہو جاتی ہے تو قومی زندگی بھی منظم ہو جائےگی ۔ اور جب قومی زندگی منظم ہو ہو تو دنیا امن و امان کو گہوارہ بن جائے گی ۔

گویا شہنشاہ سے لے کر ایک عام آدمی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ زاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کی جائے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کہ بنیاد با قائدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت ٹھیک اور باقائدہ ہو ۔

دنیا میں ایسا کوئی درخت موجود نہیں جس کا تنا کمزور اور نازک ہو اور اس کی ٹہنیاں بھاری بھر کم اور مظبوط ہوں۔ اس کائینات کی ہر چیز کا ہونا ایک وجہ رکھتا ہے اور ہر چیز کا دوسری چیز سے ربط اور تعلق اپنی جگہ اٹل ہے ۔

اسی طرح انسانی معاملوں میں ابتدا اور انتہا دونوں موجود ہیں ۔ لیکن ان درجوں کا جاننا ، ان کا تقدس ، تقدیم اور تاخیر کا علم حاصل کرنا دانشمندی کی ابتدا اور اس کی دہلیز ہے۔

No comments:

Post a Comment