Friday 31 May 2013

شخصیات پرستی

شخصیات پرستی


یہ تصویر ان کے لئے ہے، جو کہ مجھے کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں، ان کے لیے 

ہے جو اپنے لیڈروں کا دفاع کرنے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں، ان کے لئے ہے جو خود تو اندھے 

بن کر کسی کے پیچھے چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی چلنے کا کہتے ہیں، امید ہے کہ آپ سب 

کو سمجھ آ گئی ہو گی یا آ جا ئے گی کہ آپ خود کن لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں، شخصیات 

پرستی سے نکل آئیں، جو غلط کرے اسے سزا دو۔ تبدیلی، انقلاب کی بات یہاں پاکستان میں کرنا 

ویسے ہی اب فضول ہے، یہاں انقلاب نہیں آ سکتا۔


Wednesday 29 May 2013

انفرادی تربیت کی اہمیت



انفرادی تربیت کی اہمیت 

میں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ انفرادی تربیت ہی عالمی امن کی پرورش کر سکتی ہے ۔ میرے دوست احباب اکثر مجھ سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ مجھے ان کا بے حد احترام ہے۔ آج مجھ سے میرے بدیسی دوستوں نے بھی میرے دیس کے امن پر بہت ساے سوال کئے اور انہیں بھی میں نے یہی کہا کہ ہم زمیداری سے بھاگنے والے لوگ ہیں ۔ ہم لوگ اپنی بندوق چلانے کے لئے دوسروں کے کندھے استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اخلاق کا درس سب کو دیں اوراس کے زاتی اخلاق پر کوئی انگلی بھی نہ اٹھائے ۔۔

آیئے آج میں آپ کو چینی ادیب “لین ، یو، تانگ کی کتاب سے ایک اقتباس سناتا ہوں جسے مھترم مختار صدیقی نے ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب “ جینے کی اہمیت “ 1956 میں شائع ہوئی تھی ۔ اور مجھے یہ نایاب کتاب اپنے ابا جی ( سسر مرحوم ) کی لائیبریری سے ورثے میں منتقل ہوئی ہے کہ میں ان کی ادب دوستی کی وارث ہوں ۔

دوستو اس موضوع میں وہی لکھا ہے جو میری آئیڈلوجی ہے ۔۔ یوں لگ رہا ہے جیسے ادیب نے میری سوچیں پڑھ لی ہوں ۔۔۔

قدیم لوگوں کا دستور تھا کہ اگر دنیا میں اخلاقی ہم آہنگی کی تمنا کرتے ، تو یہ کہتے سب سے پہلے ہمیں خود اپنی قومی زندگی کی تنظیم کرتے ۔

قومی زندگی کی تنظیم کرنے والے سب سے پہلے گھریلو زندگی کو باقائدہ بناتے ۔

جو لوگ گھریلو زندگی کو منظم بنانا چاہتے وہ سب سے پہلے زاتی زندگی کی تربیت پر توجہ دیتے ۔ اور جو لوگ زاتی زندگی ککی تربہت و تہذیب پر توجہ دیتے ہیں ، وہ سب سے پہلے دلوں کو پاک صاف کرتے ۔۔۔

دلوں کو پاک صاف کرنے کی خواہش کرنے والے سب سے پہلے نیتوں کو مظبوط بناتے ۔ نیتوں کو مخلص بنانے والے سب سے پہلے سمجھ اور مفاہمت پیدا کرتے ۔۔۔

دوستو !
سمجھ ، اشیاء کے علم کی چھان بین سے پیدا ہوتی ہے ۔ جب اشیاء کا علم حاصل ہو جائے تو تب سمجھ پیدا ہوتی ہے ، اورسمجھ پیدا ہو جائے تو تو نیت اور ارادہ مخلص ہو جاتا ہے ۔ اور جب نیت صاف اور ارادی مخلص ہو جائے تو دل صاف ہو جاتا ہے۔ جب دل صاف ہو جائے تو زاتی زندگی کی تہذیب اور تربیت پوری ہو جاتی ہے۔ زاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب ہو جائے تو گھریلو زندگی منظم اور باقائدہ ہو جاتی ہے تو قومی زندگی بھی منظم ہو جائےگی ۔ اور جب قومی زندگی منظم ہو ہو تو دنیا امن و امان کو گہوارہ بن جائے گی ۔

گویا شہنشاہ سے لے کر ایک عام آدمی تک ہر چیز کی بنیاد اس بات پر ہے کہ زاتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کی جائے ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کہ بنیاد با قائدہ اور ٹھیک نہ ہو تو ساری عمارت ٹھیک اور باقائدہ ہو ۔

دنیا میں ایسا کوئی درخت موجود نہیں جس کا تنا کمزور اور نازک ہو اور اس کی ٹہنیاں بھاری بھر کم اور مظبوط ہوں۔ اس کائینات کی ہر چیز کا ہونا ایک وجہ رکھتا ہے اور ہر چیز کا دوسری چیز سے ربط اور تعلق اپنی جگہ اٹل ہے ۔

اسی طرح انسانی معاملوں میں ابتدا اور انتہا دونوں موجود ہیں ۔ لیکن ان درجوں کا جاننا ، ان کا تقدس ، تقدیم اور تاخیر کا علم حاصل کرنا دانشمندی کی ابتدا اور اس کی دہلیز ہے۔

Tuesday 28 May 2013

نواز شریف اور بے نظیر کی زندگی کی کچھ انتہائی خفیہ کہانیاں!!!

Ye Nawaz Sharif Kon Hai??? by Javed Chaudhry

28مئی یوم تکبیر

 یوم تکبیر  


پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن جب بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی 1998 کو پاکستان نے صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کئے۔ اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے موسوم کیا گیا جبکہ یوم تکبیر کا نام کراچی کے ایک رہائشی مجتبی رفیق نے اپنے ایک خط میں اس وقت کے وزیر اعظم کو خط میں بیجھا اور اسی طرح پھر 28مئی یوم تکبیر کے نام سے منایا جانے لگا۔ یوں تو بھارت اپنے قیام سے ہی جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھتا رہا ہے۔ عددی اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی زمینی فوج ، چوتھی بڑی فضائیہ اور پانچویں بڑی بحریہ رکھنے والا ملک 1974 میں ہی ایٹمی تجربہ کر کے خطّے میں ایٹمی اسلحہ کی دوڑ شروع کر چکا تھا

مجبوراً پاکستان کو بھی اپنے دفاع کے لئے اس دوڑ میں شامل ہونا پڑا۔ دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے باعث بھارت کے ساتھ روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ نہیں کر سکتا مزید یہ بھی کہ بھارت ایٹمی ? قوت بنّے سے قبل ہی پاکستان پر جارحیت کرکے اس کو دولخت کرچکا تھا۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد خطہ میں طاقت کا توازن بری طرح بگڑ گیا تھا۔ اس لئے بھارتی ایٹمی تجربات کے بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالم اسلام کی ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔بھارت نے مئی 1998 میں ایک بار پھر ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے بعد بھارت میں ہر سطح پر پاکستان کے لیے دھمکی آمیز لہجے کا استعمال شروع ہو گیا۔

اگرچہ پاکستان اس وقت تک ایٹمی صلاحیت حاصل کر چکا تھا، لیکن اس کا واضع طور پر اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم جناب نواز شریف نے تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود پاکستان کو ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت منوانے کا یہ سنہری موقعہ ضائع نہیں ہونے دیا اور 28 مئی کو چاغی میں 5 دھماکے کر کے بھارتی سیاستدانوں کا منہ بند کروا دیا۔


Monday 27 May 2013

سیاست دانو ں کے گھروں میں اندھیرے کر دو اگر اپنے گھروں میں روشنی چاہتے ہو تو



سیاست دانو ں کے گھروں میں اندھیرے کر دو اگر اپنے گھروں میں روشنی چاہتے ہو تو 

پورے ملک میں اندھیرا ہے تمہارے گھروں میں اجالا کیسا ہے ۔ ان کے گھروں میں اندھیرے ڈالو تمہارے گھر روشن ہوجائیں گے ۔
دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے اندر راشن کی بڑی خوفناک قلت ہوئی تو ھندوستان میں جتنے گورے تھے انہوں نے اپنے اوپر خوراک حرام کرلیا تھا انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ عملاً اظہار یکجہتی کرتے ہیں ۔
ہم پر حکمران طبقہ شیطان اور خبیث ہے ان کی سوچیں گندی ہیں ۔ یہ عوام کو شہری نہیں رعایا سمجھتے ہیں ۔ آئین میں لکھا ہے کہ سب برابر ہے پھر تمہارے گھروں میں ہی روشنیاں کیوں ہیں ؟
عوام کی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ٹائر جلاتی ہے جلانے والی چیز جلاو تاکہ روشنی پورے ملک میں پھیلے ۔
حسن نثار


کرنسی


کرنسی


اگر کسی کو ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کا اتفاق ھوا ھو 
تو آپ واقف ھوں گے ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ھوۓ کرنسی تبدیل کرنی پڑتی ھے، 
اگر آپ سعودی عرب جا کر پاکستانی روپے دے کر کچھ خریدنا چاھیں تو دوکاندار آپ کو پاگل سمجھے گا، 
کیونکہ ھر ملک کی کرنسی علیحدہ ھوتی ھے کچھ خریدنے کے لیۓ اُپ کے پاس پہلے اس ملک کی کرنسی ھونی ضروری ھے۔ 
اسی طرح جب ھم اس فانی دنیا سے سفر عاقبت کا سفر شروع کرتے ھیں تو... 
آخرت کی بھی ایک کرنسی ھے
جس کے زریعے سے ھمارے لیۓ جنت اور جہنم کا فیصلہ ھوتا ھے، اور آخرت کی کرنسی ھے
نیکی،
اگر ھمارے پاس نیکی کی کرنسی وافر مقدار میں موجود ھو گی تو جنت میں جانا ھمارے لیۓ بے حد سہل اور آسان ھو گا۔

اللہ پاک ھمیں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی کرنسی جمع کرنے کی توفیق عطا فرمایٔیں۔ آمین



Sunday 26 May 2013

الیکٹرانک میڈیا کےمقاصد

Wednesday 22 May 2013

ضرور سوچئے

ضرور سوچئے

ایک شخص نے خوبصورت محل کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دوست سے پوچھا، جب ان لوگوں کی قسمت میں دولت کی تقسیم لکھی جارہی تھی تو ہم کہاں تھے؟ دوست اس شخص کو پکڑ کر ہسپتال لے گیا اور مریضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، جب ان لوگوں کی قسمت میں بیماریاں لکھی جا رہی تھیں تو ہم کہاں تھے؟




Wednesday 15 May 2013

پیغام آگاہی


٭٭٭ پیغام آگاہی ۔۔ غور سے پڑھیئے ۔۔ اور پھر شئیر کرنا نہ بھولیئے ۔۔ شُکریہ ٭٭٭

جنوب افریقا کے شہر جوھانسبرگ سے لندن آتے ہوئے پرواز کے دوران، اکانومی کلاس میں ایک سفید فام عورت جس کی عمر پچاس یا اس سے کچھ زیادہ تھی کی نشست اتفاقا ایک سیاہ فام آدمی کے ساتھ بن گئی۔....................!

عورت کی بے چینی سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس صورتحال سے قطعی خوش نہیں ہے۔ اس نے گھنٹی دیکر ایئر ہوسٹس کو بلایا اور کہا کہ تم اندازہ لگا سکتی ہو کہ میں کس قدر بری صورتحال سے دوچار ہوں۔ تم لوگوں نے مجھے ایک سیاہ فام کے پہلو میں بٹھا دیا ہے۔ میں اس بات پر قطعی راضی نہیں ہوں کہ ایسے گندے شخص کے ساتھ سفر کروں۔ تم لوگ میرے لئے متبادل سیٹ کا بندوبست کرو۔
ایئر ہوسٹس جو کہ ایک عرب ملک سے تعلق رکھنے والی تھی نے اس عورت سے کہا، محترمہ آپ تسلی رکھیں، ویسے تو جہاز مکمل طور پر بھرا ہوا ہے لیکن میں جلد ہی کوشش کرتی ہوں کہ کہیں کوئی ایک خالی کرسی تلاش کروں۔...........!

ایئرہوسٹس گئی اور کچھ ہی لمحات کے بعد لوٹی تو اس عورت سے کہا، محترمہ، جس طرح کہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جہاز تو مکمل طور پر بھرا ہوا ہے اور اکانومی کلاس میں ایک بھی کرسی خالی نہیں ہے۔ میں نے کیپٹن کو صورتحال سے آگاہ کیا تو اس نے بزنس کلاس کو بھی چیک کیا مگر وہاں پر بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ اتفاق سے ہمارے پاس فرسٹ کلاس میں ایک سیٹ خالی ہے۔...............!

اس سے پہلے کہ وہ سفید فام عورت کچھ کہتی، ایئرہوسٹس نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے کہا، ہماری کمپنی ویسے تو کسی اکانومی کلاس کے مسافر کو فرسٹ کلاس میں نہیں بٹھاتی، لیکن اس خصوصی صورتحال میں کیپٹن نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی شخص ایسے گندے شخص کے ساتھ بیٹھ کر اپنا سفر ہرگز طے نا کرے۔ لہذا۔۔۔۔

ایئرہوسٹس نے اپنا رخ سیاہ فام کی طرف کرتے ہوئے کہا، جناب محترم، کیا آپ اپنا دستی سامان اُٹھا کر میرے ساتھ تشریف لائیں گے؟ ہم نے آپ کیلئے فرسٹ کلاس میں متبادل سیٹ کا انتظام کیا ہے۔
آس پاس کے مسافر جو اس صورتحال کو بغور دیکھ رہے تھے، ایسے فیصلے کی قطعی توقع نہیں رکھ رہے تھے۔ لوگوں نے کھڑے ہو کر پر جوش انداز سے تالیاں بجا کر اس فعل کو سراہا جو کہ اس سفید فام عورت کے منہ پر ایک قسم کا تھپڑ تھا۔................!

بنی آدم جس کی پیدائش نطفے سے ہوئی, جس کی اصلیت مٹی ہے, جس کے اعلیٰ ترین لباس ایک کیڑے سے بنتے ہیں, جس کا لذیذ ترین کھانا ایک (شہد کی) مکھی کے لعاب سے بنتا ہے، جس کا ٹھکانا ایک وحشتناک قبر ہے اور ایسا تکبر اور ایسی بڑائی....!!!

۔۔۔؎ ایلفا

Saturday 4 May 2013

ٹیپو سلطان تاریخ اسلام (Tipu SultanThe GreaT)

ٹیپو سلطان تاریخ اسلام



ٹیپو سلطان تاریخ اسلام کا وہ لازوال کردار ہے جس پر عالم اسلام تا قیامت نازاں رہے گا ۔ مسلم مورخ سچ لکھتا ہے کہ حضرت اقبال کے مردِ مومن کو اگر مجسم حالت میں دیکھنا مقصود ہو تو ٹیپو سلطان شہید اس کا بہترین نمونہ ہے۔ تاریخ عالم شاید ہی اس جری و اولوالعزم مسلم سلطان کی کوئی مثال یا نظیر پیش کر سکے گی۔ ٹیپو سلطان شہید نا صرف ایک مردِ مجاہد تھا بلکہ حقیقی معنیٰ میں حضرت اقبال کا وہ مردِ مومن تھا جو عالِم بھی تھا اور عابد بھی۔ ایک جری سپاہی اور بہترین سپہ سالار بھی تھا اور ایک بہترین حاکم و منتظم بھی۔ ایک تجربہ کار سیاستدان اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والا عوامی رہنما بھی تھا اور عوام دوست قائد بھی۔ سلطان حیدر علی کی وفات کے بعد جس وقت عنانِ حکومت ٹیپو سلطان کے ہاتھ آئی امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور مسلمانانِ ہند تقسیم ہو رہے تھے۔ ٹیپو سلمان نے ایک جانب اپنی پوری توجہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین الاقوام ہند پر مرکوز کی تو دوسری جانب ملک کی صنعت و حرفت پر بھرپور توجہ دی۔

سلطان کے یہی عزائم و ارادے تھے جنہوں نے صلیبی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس مسلم سلطان کا مخالف بنا دیا اور اسی مخالفت نے اس کو تمام عمر جنگوں میں مصروف رکھا۔ مگر باوجود اس کے سلطنتِ خداداد میسور نے صنعت و حرفت اور دیگر فنون میں جو ترقی کی وہ میسور کو کبھی دوبارہ حاصل نہ ہوسکی ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورے شیطان جان چکے تھے کہ اگر ٹیپو سلطان کو اپنے ارادوں میں کامیاب ہونے دیا جائے گا تو پھر مغربی طاقتوں کا ہندوستان پر قبضہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ٹیپوسلطان کے خطرہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز، نظام اور مرہٹے متحد ہوگئے۔انگریز اسے ہندوستان پر اپنے اقتدارِ کامل میں سب سے بڑی، بلکہ واحد رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس مسلم دشمن اتحاد کے مقصد کو مزید کامیاب بنانے اور رائے عامہ کی اخلاقی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انگریزوں نے نہایت عیاری سے ٹیپو سلطان کی مفروضہ چیرہ دستیوں کو اس انداز میں دور تک پہنچادیا کہ خود اپنے بھی اس سے نفرت کرنے لگے۔ حتیٰ کہ فورٹ ولیم کی دیواروں پر کھڑے ہو کر اعلان کردیا گیا کہ سلطان ٹیپو سفاکی اور بربریت میں چنگیز اور ہلاکو سے بڑھ کر ظالم اور انسان دشمن ہے [جیسے آج بھی کوئی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو جائے تو اسے بنیاد پرست، قدامت پسند اور دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے]۔

اور پھر 4 مئی 1799 ء 29 ذی قعدہ 1213 ہجری کو ٹیپو سلطان شہید نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے اپنے طاﺅس نامی گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلے۔ انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوار چند مقامات پر گر چکی تھی ۔ سلطان نے اس کی مرمت کا حکم دیا اور پھر واپس محل آ جا کر غسل کیا۔ یاد رہے کہ قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کر کے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگے تھے۔ غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتے رہے۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترے ایک درخت کے سائے میں نماز ظہر ادا کی اور وہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیا تھاکہ شہر کی طرف سے رونے اور چلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ ٹیپوسلطان نے سپاہیوں سے دریافت کیا کہ یہ شور کیسا ہے تو معلوم ہوا کہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار شہید ہو گیا ہے اور انگریزی فوج سلطنت کے غداروں کی مدد سے بلا روک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ وہ فوراً دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوئے چند جانثاروں کو ساتھ لیا اور قلعہ کے دریچے ڈڈی دروازہ سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھے۔ ٹیپو سلطان کے باہر نکلتے ہی غدار ِ ملت میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کر دیا تاکہ اگر سلطان کو واپس قلعہ میں آنا پڑے تو وہ واپس نہ آسکیں۔ اور پھر شیر میسور سلطان فتح علی ٹیپو امت مسلمہ اور دین محمدی کی سربلندی اور آزادی ءامت کی حفاظت کرتا ، دست بدست مردانہ وار لڑتا ہوا اپنی جان پر کھیل کر شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو کر ٹیپو شہید کہلایا، مگر اس غداری کی سزا میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی۔ اس کی تفصیل تاریخ دان صاحب حملات حیدری نے جن الفاظ میں بیان کی ہے وہ ہو بہو پیش کر رہا ہوں۔

”میرصادق نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آکر دربانوں کو کہاکہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کرلینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھا تھا کہ سامنے سے ایک سپاہی ملازم سلطانی آ کر اسے لعن طعن کرنے لگا کہ اے روسیاہ ،راندہ درگاہ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ تو سلطان دین پرور محسن عالی گوہر , ٹیپو کو دشمنوں کے جال میں پھنسانے کے بعد اپنی جان کیسے بچا لئے جاتا ہے کھڑا رہ، روسیاہی کے کاجل سے اپنا منہ تو کالا کر لے۔ یہ کہتا ہوا کمال طیش سے ایک ہی وار میں اس کو آب تیغ سے شربت اجل پلا گھوڑے کی زین سے زمین پر مار گرایا۔ اس بدبخت میر صادق کی لاش چار دن تک گلنے سڑنے کے بعد قلعے کے دروازے پر بغیر کفن کے دفن کر دی گئی۔ آج بھی لوگ آتے جاتے قصداً اس ننگ آدم ، ننگ دین، ننگ وطن مردود کی قبر پر تھوکتے، پیشاب کرتے اور ڈھیر کے ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں“



افسوس صد افسوس کہ آج کے ننگ وطن، ننگِ آدم، ننگ ِ دین غداروں نے ابھی تک میر صادق کے عبرت ناک انجام سے نہ کوئی سبق سیکھا ہے نہ ہی سیکھیں گے۔




L

Thursday 2 May 2013

When you have nothing you have to be creative.


When you have nothing you have to be creative.

When you have nothing you have to be creative.
(Africa) This craftsman is so talented at recycling old tyres into shoes that he will even measure your feet and make a pair that fits your feet exactly, to the millimeter!


انقلاب احساس کا نام


غریب ہیں تو کیا ہوا،انسان ہیں، ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے، ارمان مچلتے ہیں، ان کے پاءوں بھی زخمی ہوتے ہیں، جب ننگے پاءوں یہ سڑک پہ چلتے ہیں، نوکیلے پتھر جب چبھتے ہیں، ان کی آنکھوں میں پھیلا ہوا پیلا پن کہہ رہا ہے کہ یہ بیمار ہیں، اور تن پہ لپٹے پھٹے ہوئے کپڑے کہہ رہے ہیں کہ غریب ہونا یہاں جرم ہے۔
باتیں ہوتی ہیں انقلاب کی، مگر کبھی کسی نے ان کی طرف نہیں دیکھا، یہ بھی انسان ہیں، ان کو کسی بڑے انقلاب کی ضرورت نہیں ہے، ان کو پاءوں کے لیے جوتوں کی ضرورت ہے، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑوں کی، اور بھوک مٹانے کے لیے روٹی کی ۔۔۔۔۔ یہ ہی ان کے لیے انقلاب ہے۔۔ اس کے لیے نہ ہی عمران خان چاہئیے، نہ ہی نواز نہ ہی کوئ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ایک مسلمان چاہئیے، جو صرف اللہ کی رضاء کے لیے، گھر سے فالتو کپڑے ہی نکال کر دے دے، زائد بچ چانے والا کھانا پھینکنے کی بجائے ان غرباء کو ہی دے دے، پرانے جوتے، جو ان کے ننگے پاءوں کو زخمی ہونے سے بچائیں وہ ہی دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔
اس انقلاب کے لیے کسی ووٹ کی ضرورت نہیں ہے، انقلاب احساس کا نام ہے، جب قوم میں احساس بیدار ہوگیا، وہ انقلاب کا پہلا دن ہوگا، وہ سورج کی پہلی کرن ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔



Wednesday 1 May 2013

ایک نوجوان کی کہانی

ایک  نوجوان  کی کہانی 

ایک امریکی نوجوان نے اپنی زندگی کے حسین ترین ایام ایک ورکشاپ میں لکڑیاں چیرنے میں گزار دیئے۔ اسکی جوانی کی بے محار طاقت پرمشقت اور سخت ترین کام کر کے کچھ زیادہ ہی تسکین پاتی تھی۔ اور آرے پر لکڑیاں چیرتے چیرتے اسکی زندگی کے چالیس سال گزر گئے ۔

یہ مشقت والا کام کرتے ہوئے "والاس جونسن" ہمیشہ اپنے آپ کو اس آرے کی مشین پر بہت اہم فرد محسوس کرتا تھا کہ ایک دن آرے کے مالک نے اسے بلا کر ایک تشویشناک خبر دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں ابھی اور اسی وقت کام سے نکال رہا ہوں اور کل سے ادھر مت آنا۔

والاس کیلئے یہ خبر کسی مصیبت سے کم نہ تھی۔ وہ وہاں سے نکل کر خالی الذہن اور پریشان حال سڑکوں پر نکل پڑا۔ دماغ کسی منصوبہ بندی سے خالی اور دل بار بار کچوکے لگاتا ہوا کہ زندگی کے اتنے حسین سال ایسے ضائع ہوگئے؟ پریشانی سے رونا بھی نہیں آ رہا تھا اور دل تھا کہ اس نوکری سے چلنے والی گھر کی روزی روٹی کا سوچ سوچ کر ڈوبا جا رہا تھا۔ اور ایسا ہوتا بھی کیوں ناں؟ اسکی روزی کا اکلوتا دروازہ اس پر بند ہو گیا تھا، زمین اس پر تنگ ہو کر رہ گئی تھی اور آسمان منہ موڑ گیا تھا۔ اُسے ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے رہا تھا۔
جو چیز اُسے سب سے زیادہ پریشان کر رہی تھی کہ وہ کس منہ سے جا کر اپنی بیوی کو بتائے کہ اس کے پاس گھر کے گزارے کیلئے جو نوکری تھی وہ جاتی رہی تھی۔ مگر ناچار شام کو لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اُسے گھر لوٹناہی پڑا۔

والاس کی بیوی نےوالاس سے بر عکس نوکری چھوٹنے کا صدمہ نہایت تحمل سے سُنا اور والاس جونسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا: کیوں ناں ہم اپنے گھر کو رہن کر قرضہ اُٹھائیں اور کوئی تعمیرات کا کام شروع کریں؟
اور اُس نے واقعی ایسا ہی کیا، اپنے گھر کو رہن رکھ کر کچھ قرضہ اُٹھایا اور اُس پیسے سے دو چھوٹے گھر بنائے۔ اس پہلے تعمیراتی کام میں اُسکی اپنی محنت اور مشقت زیادہ شامل تھی۔ یہ دو گھر اچھے پیسوں سے بکے تو اُسکا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اور پھر تو چھوٹے گھروں کے پروجیکٹ اُسکی پہچان بن گئے۔ اور اپنی محنت اور قسمت کے بل بوتے پر صرف پانچ سال کے مختصر عرصے میں ہی والاس ایک ایسا مشہور ملیونیر والاس جونسن بن چکا تھا ۔

یہ شخص اپنی ڈائری میں ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتا تھا کہ : اگر آج مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ اُس آرا ورکشاپ کا مالک، جس نے نے مجھے کام سے نکالا تھا، کہاں رہتا ہے تو میں جا کر اُسکا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں۔ کیونکہ اُس نے میرے لیئے ایسی صورتحال پیدا کر کے بظاہر تو ایسی دردناک کیفیت پیدا کر دی تھی جس نے میرے ہوش و حواس ہی چھین لیئے تھے، مگر آج میں نے یہ جانا ہے کہ اگر اللہ نے مجھ پر ایک دروازہ بند کیا تھا تو اُسکے بدلے ایک نیا راستہ بھی تو کھول دیا تھا جو کہ میرے اور میرے خاندان کیلئے زیادہ بہتر ثابت ہوا۔

پیارے دوست؛ جب کبھی بھی کسی ناکامی کا سامنا ہو جائے تو اُسے اپنا اختتام نا سمجھ لو۔ بس ذرا ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کی عطا کردہ دوسری خوبیوں کے ساتھ سوچو اور ایک نئی ابتدا کرلو۔
جب ہمارے اختیار میں ہو کہ ہم اس سے بہتر کچھ کر سکتے ہوں تو پھرزندگی کا اختتام اس طرح روتے اور منہ بسورتے تو ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگے اور وہ تمہارے لئے مضر ہو۔
اور ان باتوں کو خدا ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (سورۃ البقرہ –آیۃ 216)



Life of A Labour



مزدور و ں کی زندگی 
بہت سے مزدور ایسے ہیں جو کہ دیہاڑی دار ہیں، مطلب یہ کہ روز کے روز جو کماتے ہیں وہ ہی خرچ کرتے ہیں، اگر روز کا پانچ سو کماتے ہیں تو پانچ سو ہی خرچ کرتے ہیں، جن میں بجلی و گیس کے بل اور مکان کا کرایہ بھی شامل ہوتا ہے۔ صرف ایک دن کی لوڈشیڈنگ وجہ سے ، ان کی ایک دن کی دیہاڑی ٹوٹ جاتی ہے، اس دن یا تو فاقے کرتے ہیں، یا واقفیت کی بناء پر محلے کے کسی سٹور سے ادھار پر کھانے پینے کی چیزیں خریدنے پہ مجبور ہوتے ہیں، ایسے دیہاڑی دار مزدور لاکھوں کی تعداد میں ہیں، جو صنعتوں سے وابستہ ہیں، جن کے لیے بجلی فاقوں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
یہ لاکھوں کی تعداد میں مزدور فاقہ مستی پہ مجبور ہیں، کئ قرض کی وجہ سے حالات سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اپنی جان ، اپنے ہاتھوں سے ختم کرلی ۔۔۔۔
جب سے پاکستان بنا ہے ، روٹی ، کپڑا و مکان کا نعرہ سب سے مقبول سیاسی نعرہ رہا ہے، خاص کر بھٹو صاحب کے زمانے میں تو اس نعرے نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخابات سر پر ہیں، اور لوڈ شیڈنگ کی انتہا ہے۔ عوام بیچاری عجیب کیفیت میں مبتلا ہے، وہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی سے مایوس نظر آتی ہے، نگران حکومت کے زمانے میں ہی ظلم وجبر کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش کہ ایک خود کش حملہ آور ، ان سیاستدانوں اور ان لوگوں کے درمیان جنھوں نے ملک کو آپاہج بنا رکھا ہے ، پھٹ جائے ۔ ساری قوم اس کو جنت کی بشارت دے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔

دنیا کے دو گروپ

دنیا کے دو گروپ 

اس وقت دو گروپ پوری دنیا میں متحرک ہیں، جو صدیوں سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں، مگر ایک ساتھ رہ بھی رہے 
ہیں، ریل کی پٹری کی دو لائینوں کی طرح ایک دوسرے کے متوازی ہیں، ساتھ ہوکر بھی ساتھ نہیں ہیں۔
ان میں سے ایک گروپ وہ ہے جس کو "ایران" کی حمایت حاصل ہے، جن ممالک میں انقلاب کے نام پر حکومتوں کے تختے الٹے گئے ہیں، ان میں یہ "ایرانی" گروپ خاص طور پر متحرک ہے
دوسرا گروپ " سعودی عرب" کا حمایت یافتہ گروپ ہے، جو اس بات کی فکر میں ہے کہ طاقت کا توازن خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ "سعودی عرب" کے خلاف پروپیگنڈا بھی اسی مقصد کے لیے کیا رہا ہے۔ پہلا گروپ یہ چاہتا ہے کہ "سعودی عرب" بھِی اسی انقلاب کا شکار ہوجائے، تاکہ "ایران" سعودیہ کے مقابلے میں اپنی طاقت کو بڑھا سکے۔
ایران سے لے کر شام تک ایک پٹی ہے ، جس میں "ایرانی" گروپ متحرک نظر آتا ہے۔
"سعودی عرب" کے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں، مگر پاکستان میں بڑھتے ہوئے "ایرانی" اثرات ، سعودی عرب کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ جاتے ہوئے " پاک ایران" گیس پائپ لائن منصوبہ، گزشتہ حکومت کا "ایران" کی طرف جھکاءو کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حالانکہ پاکستان میں کوئلے کے کثیر ذخائر ہیں، جن کو قابل استعمال بنا کر، انرجی کی بنیادی ضروریات پوری کی جاسکتی تھیں، سعودی عرب "پاکستانی حکومت" کے اس روئیے سے نہایت ناخوش دیکھائ دیتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایک سازش کا انکشاف ہوا، جب بارہ کے قریب "ایرانی" حمایت یافتہ جاسوس پکڑے گئے، ان کے پاس سے ایسی دستاویزات اور نقشے بھی برآمد ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کررہے تھے کہ سعودی عرب میں ایک بہت بڑی "تخریبی" کاروائی کی پلاننگ کی جارہی ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ کچھ "پاکستانی شہری" جن کی ہمدردیاں ایران کے اس گروپ کے ساتھ ہیں وہ بھی سازش میں شریک ہیں، اس کے علاوہ جعلی دستاویزات بھی بڑی تعداد میں پکڑی گئیں، جو کہ کسی بھی غیر ملکی کا سعودی عرب میں "کام" کرنے کا اجازت نامہ ہے۔ یہ جاسوس "سکائپ " کے ذریعے رابطے میں تھے۔ جب سکائپ سے سعودی عرب کی حکومت نے " ڈیٹا" مانگا تو سکائپ نے دینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے سعودی عرب کی حکومت نے سکائپ پہ پابندی لگانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کردیا ۔۔۔۔۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ایک "ایرانی گروپ حزب اللہ" کی جانب سے سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی گئ تھی۔ ماضی میں ایرانی انقلاب کے زمانے میں، "خانہ کعبہ" پہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئ، یہ کام اس وقت کیا گیا، جب پوری دنیا سے لوگ "حج" کے لیے خانہ کعبہ میں موجود تھے۔
۔
AB



زندگی کے طوفان

                    زندگی کے طوفان 



زندگی میں کبھی ٹھہراءو سا آجاتا ہے، کچھ نیاء و عجیب نہیں لگتا۔ انسان جب اپنی زندگی سے مطمئن ہوجائے تو اس کے اندر اٹھنے والا طوفان تھم جاتا ہے، جیسے کوئ کشتی سمندر کے درمیان بھنور میں پھنسی ہو، پھر اچانک طوفان تھمے اور کشتی سمندر پہ ایسے ٹھہر جائے جیسے کوئ پتہ ٹھہرے ہوئے پانی پہ تیرتا ہے۔
انسان کے اندر اٹھنے والے اکثر طوفان ، تقدیر کی وجہ سے آتے ہیں، انسان کے اندر، اس طوفان میں، شدت بار بار اسے سوچنے سے آتی ہے۔ ایک ہی غم کو مسلسل اپنے اوپر سوار کرنا، اللہ کی تقدیر پہ راضی نہ ہونا ہی وہ وجہ ہے کہ اس طوفان کا نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
خود کو اللہ کے حوالے کردیں، اپنی تقدیر پہ راضی ہوجائیں، آپ کے ساتھ اچھا ہوا تو اللہ کا شکر ، برا ہوا تو اس پہ صبر کہ اللہ کی یہ ہی مرضی تھی وہ مجھے آزمانا چاہتا ہے۔
یقین مانیں، زندگی میں ٹھہراءو آجائے گا، زیادہ سوچنے سے پریشانیاں کیا کم ہونی ہیں، انسان کا وجود ہی موم کی طرح پگھلنا شروع ہوجاتا ہے، یہ سوچ اس کو بیمار بنا دیتی ہے، انسان کا وجود زندہ لاش کی مانند نظر آتا ہے۔
جو مجھے ملا اس پر اللہ کا شکر ، جو نہیں ملا اس پہ بھی میں اپنے اللہ سے خوش ہوں کہ مجھے آخرت میں اللہ سے بہت کچھ ملنے کی امید ہے۔ یہ سوچ آپ کے دل کو سکون بخشے گی، بیشک سکون اللہ کے ذکر میں ہی ہے۔
۔
از: عبدالباسط احسان
۔۔۔۔۔۔۔




Stop Child Labour And Give them BooKs

On this Labor Day let's take a Pledge to make Pakistan an Educated country .